کل کی یہ خبر تو بعض اخباروں میں سپرلیڈ تھی کہ امریکہ نے پاکستان کو 8عدد ایف 16طیاروں کی فروخت کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ یہ طیارے جو تقریباً 700 ملین ڈالر کے ہوں گے، وہ پاکستان کو فروخت کئے جا رہے ہیں یا فارن ایکسچینج پروگرام کے تحت دیئے جا رہے ہیں جس کی رو سے ان کی قیمت تقریباً آدھی ہو جاتی ہے۔ ان طیاروں کی آج پاکستان کو اتنی ضرورت نہیں جتنی ضرورت امریکہ کو ان کو فروخت کرنے یا گرانٹ میں دینے کی ہے۔ اس موضوع پر بھی ہمارے میڈیا میں طول طویل بحثیں ہو چکی ہیں۔ ایک عام پاکستانی نے اب یہ دیکھنا ہے کہ ان طیاروں کو پاکستان کے حوالے کرنے میں وہ کون سے مضمرات ہیں جو اوباما ایڈمنسٹریشن کو یہ کڑوی گولی نگلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
ہم یہ تو جانتے ہیں کہ امریکن کانگریس ایک عرصے سے اس ڈیل کی مخالفت کر رہی تھی۔ اس بات کو چھوڑیئے کہ کانگریس میں اکثریت ری پبلکن پارٹی والوں کی ہے یا ڈیمو کریٹس کی۔ سوال یہ ہے کہ صدر اوباما اگر کانگریس کے خلاف کوئی اقدام اٹھا رہے ہیں تو وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ جہاں تک راقم السطور نے امریکن وار سٹرٹیجی کا مطالعہ کیا ہے، اس کا لب لباب اور آخری سبق یہ ہے کہ امریکی اپنی پالیسی کو حالات کے مطابق اور حسبِ ضرورت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ فرض کریں اگر گزرے ہوئے صرف تین دنوں میں کوئی ایسی نئی پیشرفت ہوجاتی ہے جو گزشتہ چار دنوں سے رائج پالیسی کے خلاف جاتی ہے تو امریکہ اپنی سابق پالیسی تبدیل کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتا۔ رہی یہ بات کہ کانگریس اور ایڈمنسٹریشن کبھی ایک صفحے پر ہوتی ہیں اور کبھی نہیں تو یہ ہمارا واہمہ ہے۔ امریکہ کی یہ دونوں ’’پارٹیاں‘‘ (ایڈمنسٹریشن اور کانگریس) کبھی بھی دوصفحات پر نہیں رہیں۔ یہ صرف ہمارے دکھانے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔
ہم لوگ (بلکہ دنیا کے اکثر لوگ) امریکی تلون کیشی اور اس کے تانا شاہی مزاج کے کم کم شناسا ہیں۔ ہم اپنی اخلاقی، مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی اقدار کے مطابق امریکہ کے ایکشن اور ری ایکشن کو جانچتے اور پرکھتے ہیں لیکن خود امریکہ کا عمل اور ردعمل کسی بھی اخلاقی ضابطے یا قاعدے کلیئے کا پابند نہیں۔ اس کا صرف اور صرف ایک ہی اخلاقی ضابطہ اور قاعدہ کلیہ ہے اور وہ ہے 24گھنٹے کے ورلڈ ٹائم ٹیبل میں اپنی فارن اور ڈیفنس پالیسیوں کو وقت کے تقاضوں کے مطابق سنکرو نائز کرنا۔۔۔ امریکہ نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان کو ایف 16کی چنداں ضرورت نہیں رہی اور اس کا کام اپنے JF-17 سے نکل رہا ہے تو اس نے 8عدد ایف 16کی آفر کرکے ایک تو فاٹا (بالخصوص شمالی وزیرستان کے جنوب مغربی حصے) میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کی مہم کو مزید تیز اور ثمربار کرنے کے لئے یہ طیارے پاکستان کو دیئے جن میں شدت پسندوں کو ٹریک کرکے ان کو ہلاک کرنے کے تازہ ترین آلات نصب ہیں تاکہ قندھار، ہلمند اور کابل وغیرہ میں اپنے ٹروپس کو طالبان کے حملوں سے نسبتاً محفوظ بنایا جا سکے اور دوسرے بھارت کی دُم پر بھی پاؤں رکھ دیا جائے۔
بھارت ایک طویل عرصے سے اپنی فضائیہ کا ترکش اپ ٹو ڈیٹ (up to date)کرنے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ عمل اتنا آہستہ رو ہے کہ نہ صرف خود انڈین ائر فورس کے اربابِ بست و کشاد بلکہ دنیا بھر کے دفاعی پیداوار کے شعبے بھارت کی اس سست گامی سے تنگ آ چکے ہیں۔ بھارت کے پاس مگ، میراج اور ایس یو سوخوئی وغیرہ کے مختلف جدید و قدیم ورشن موجود ہیں۔ لیکن ان میں ایف 16 شامل نہیں۔ جب سے امریکہ نے بھارت کو اپنا نیا جوہری اتحادی چنا ہے، اس کو تب سے ارمان تھا کہ بھارت اپنی مسلح افواج کو روس کے بھاری ہتھیاروں کے چنگل سے نکال کر امریکی چنگل میں دے دے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نریندر مودی کے آنے سے بھی پہلے بھارت نے اپنی فضائیہ کے لئے 126 عدد لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لئے فرانس کا انتخاب کر لیا تھا۔ بھارت نے ایسا کیوں کیا تھا اور نریندر مودی نے اب Make in India کے نعرے کی اوٹ میں کانگریس پارٹی کے تبتع میں فرانس ہی کا انتخاب کیوں کیا، میرے خیال میں یہ امر بھارتیوں کی حد سے بڑھتی ہوئی سادہ لوحی اور اہل مغرب کی حد سے بڑھی ہوئی عیاری کا ثبوت ہے۔ حال ہی میں (26جنوری) فرانسیسی صدر ہالینڈے نے نئی دہلی میں 126 رافیل لڑاکا طیاروں کا آرڈر بغل میں داب کر پیرس کا رخ کیا تو امریکہ کو ایک زبردست دھچکا لگا۔ اس لئے نہ صرف 8عدد ایف 16 کی آفر کو پہیے لگائے گئے بلکہ جدید راڈار اور کئی اور اقسام کا عسکری سازوسامان بھی پاکستان کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ظاہر ہے یہ اعلان پاکستان کو زیادہ خوش کرنے کی بجائے بھارت کو زیادہ اشتعال دلانے کے لئے کیا گیا ہے۔
بھارت جن شرائط پر ایف۔16 کا خریدار بننا چاہتا تھا وہ امریکہ کی دفاعی پیداوار کی رِیت نہیں تھی۔ ایف۔ 16 یا اس قسم کے دوسرے سٹیٹ آف دی آرٹ امریکی ہتھیار، امریکہ سے باہر دوسرے ملکوں میں بھی پروڈیوس ہو رہے ہیں تاہم ان کا معیار وہ نہیں جو Made in USA ورشنوں کا ہے۔ امریکہ اپنی جدید ٹیکنالوجی کو ملک سے باہر بھیج کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیسے مار سکتا ہے؟ وہ اس ٹیکنالوجی کو تو اسرائیل اور جنوبی کوریا تک کو دینے میں سخت متامل ہے چہ جائیکہ بھارت یا کوئی دوسرا ملک اس قسم کی امیدیں امریکہ سے لگائے۔خدا کا شکر ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی یہ ’’معذوری‘‘ (Complusion) بہت پہلے بھانپ لی تھی اور اپنے فضائی ترکش کے موجودہ تیروں کی اوورہالنگ اور JF-17 پر کام کی رفتار تیز کر دی تھی۔ بھارت بھی جواباً ’’تیجا‘‘ (Teja) وغیرہ پر یہی کام کر رہا ہے لیکن ابھی اسے پاکستان تک پہنچتے پہنچتے عرصہ لگے گا۔۔۔ پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تعلقات کی جو گرم جوشی ہے اس کی نقالی بھارت اور امریکہ یا بھارت اور روس کے تعلقات نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ بھارت کا وہی قدامت پرستانہ مائنڈ سیٹ اور تعصب ہے جو امریکی مائنڈ کی جدت طرازی اور کشادہ خیالی سے میل نہیں کھاتا۔
بھارت اور پاکستان کی منجمد قدامت پرستی کا اگر جائزہ لینا ہو تو اس حقیقت پر بھی غور کریں کہ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جب بھارت اور پاکستان آزاد ہوئے تھے تو جذبہ ء حریت کے اصل تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیتے۔ 1947-48 ء کی فرسٹ کشمیر وار جب 31دسمبر 1948ء کو ختم ہو گئی تھی اور دونوں ممالک نے اپنے اپنے اسلحہ فراہم کنندگان کا فیصلہ کر لیا تھا تو ان سے درآمد شدہ بھاری اسلحہ جات کے ڈھیر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ شروعات کرنے کے لئے ایک ٹینک رجمنٹ، ایک آرٹلری رجمنٹ، ایک APC رجمنٹ، ایک آبدوز، ایک سکواڈرن لڑاکا طیاروں کا، ایک ٹرانسپورٹ و ریکی طیاروں کا اور ایک بیٹل شپ ہی کافی تھا۔۔۔ بھارت رشین اور پاکستان امریکن / برٹش ورشن خرید کر ان کو اپنے ہاں ڈویلپ کرنے کا آغاز کرتے۔ اگر مقابلہ کرنا ہی تھا تو اپنے ہاں تیار ہونے والے گراؤنڈ، ائر اور نیول اسلحہ جات/ اثاثے پروڈیوس کرنے اور ان کو update کرنے میں اپنا سارا زورِ کاوش صرف کر دیتے۔ جدید اسلحہ پیدا کرنے اور سپلائی کرنے والے ممالک کو جب معلوم ہوتا کہ ان دونوں ایشیائی ملکوں نے کوئی جنگ نہیں لڑنی تو وہ ان دونوں کی اسلحہ سازی کی صنعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا ڈول ضرور ڈالتے۔
بادی النظر میں میری یہ تجویز شائد قارئین کو شیخ چلیانہ معلوم ہو ،لیکن اہل مغرب نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد یورپ اور امریکہ میں ایسا ہی تو کیا تھا!۔۔۔ کیا ایشیاء والے یا ہم برصغیر والے ایسا نہیں کر سکتے تھے؟ یورپ کے 30 سے زیادہ ممالک نے 1945ء سے لے کر اب تک کے سات عشروں میں ایک بھی باہمی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑی۔ بوسنیا کی جنگ دو برابر کے حریفوں کی جنگ نہیں تھی لیکن امریکہ نے بروقت احساس کر لیا تھا کہ یہ سلسلہ اگر مزید آگے بڑھا تو یورپ اسی طرح دو کلبوں میں تقسیم ہو جائے گا جیسے پہلی یا دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے پہلے منقسم تھا۔ چنانچہ امریکی جنگی تزویر کاروں نے اپنے اور یورپ کے براعظموں کو براہ راست جنگ کی بھٹی میں کودنے سے بچایا۔ لیکن دوسری طرف براعظم ایشیا اور براعظم افریقہ کے ممالک کو یکے بعد دیگرے کئی جنگوں میں الجھا کر ان کو مجبور کیا کہ یا سوویت کلب کی چھتری میں پناہ لیں یا مغربی چھتری کے سائے میں چلے آئیں۔ اگر ہم 1945ء سے لے کر اب تک ایشیائی اور افریقی جنگوں میں اُن تمام سلاحِ جنگ کی ایک فہرست تیار کریں جو فریقینِ جنگ نے یورپی اور امریکی ممالک سے برآمد کئے اور اسی طرح اس گولہ بارود کی مقدار کا بھی ایک گوشوارہ بنائیں جو بدنصیب ایشیائی اور افریقی اقوام کو بیچا گیا تو آپ حیران ہوں گے کہ ترقی یافتہ مغربی دنیا نے ترقی پذیر اور پس ماندہ مشرقی دنیا کی حماقت، سادہ لوحی اور نادانی سے کتنا فائدہ اٹھایا۔ اگر ہم بھی یورپی ممالک کی تقلید کرتے اور اس وقت تک کسی نئے اسلحہ اور گولہ بارود کو ہاتھ نہ لگاتے جب تک اسے اپنے ہاں پروڈیوس نہ کر لیتے تو آج جنوبی ایشیا کی تقدیر مختلف ہوتی۔۔۔ ذرا غور کیجئے کہ روس ٹی سیریز کے ٹینک بناتا ہے، فرانس لیک لیرک نام کے، جرمنی لیوپولڈ کا نام استعمال کرتا ہے، برطانیہ چیلنجر کا اور امریکہ ابراہم کا ۔ اور پھر ہر دو سال بعد ان سب کا نیا ورشن تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن کس کے لئے؟۔۔۔ کس کے خلاف؟۔۔۔ کون سے مقصد کے پیش نظر؟۔۔۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ سارے ٹینک جو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں بعد از جنگ عظیم دوم، یورپ میں اور امریکہ میں بنائے گئے وہ سارے کے سارے ایشیائی اور افریقی ممالک کو بیچے گئے۔۔۔ کیا روسی ٹینکوں کا کوئی ایک آرمرڈ ڈویژن ،امریکہ یا جرمنی یا فرانس یا برطانیہ نے بھی خریدا؟۔۔۔ نہیں اور بالکل نہیں۔ لیکن کیا یہ سارے مغربی ٹینک انڈیا، پاکستان، عرب ممالک ، افریقی ممالک اور خلیجی ریاستوں نے خریدے؟ ۔۔۔جی ہاں اور بالکل جی ہاں!
بھارت نے آج شور مچا رکھا ہے کہ پاکستان کو 8عدد ایف 16 دے کر امریکہ نے اسے دھوکا دیا ہے، اس سے بے وفائی کی ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو غیر مستحکم کرنے کی جانب ایک قدم بڑھایا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔امریکہ نے بظاہر بھارت کا الزام مسترد کر دیا ہے اور پاکستان کی پیٹھ ٹھونکی ہے اور اسے اپنے چند جدید راڈار وغیرہ بھی دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ اب آپ دیکھتے رہیے کہ بھارت کا یہ واویلا سن کر روس یا کوئی اور یورپی ملک آگے بڑھے گا اور بھارتی خریداروں کو گلے لگا لے گا۔ اوپر اوپر سے مودی صاحب Make in India کی شرط عائد رکھیں گے لیکن یاد رکھیں اگر روس یا امریکہ یا کوئی مغربی ملک، بھارت میں کوئی سٹیٹ آف دی آرٹ ہتھیار بنائے گا بھی تو وہ نمبر2ہوگا، نمبر ایک ہمیشہ روس میں بنے گا یا یورپ میں یا امریکہ میں!
اس ’’بیماری‘‘ کا علاج یہ ہے کہ بھارت Make in India پر زور دے اور پاکستان Make in Pakistanپر۔۔۔ فرض کریں اگر آج بھارت اور پاکستان اپنے ہاں نمبر2ایف۔ 16 بنانے کا ڈول ڈالیں گے تو کل یا پرسوں یا اترسوں نمبر ایک بھی بنا لیں گے۔۔۔ آپ بے شک اپنے ہاں پروڈیوس ہونے والے جہازوں کو اپنی باہمی جنگوں میں استعمال کریں، ان کو جنگوں میں تباہ کروائیں اور تباہ کریں اور وہی کچھ کریں جو ترقی یافتہ ملکوں نے موجودہ مقام تک پہنچنے کے لئے کیا تھا۔۔۔ پھر دیکھیں آپ بھاری یا ہلکے ہتھیاروں کی خودکفالت میں کتنی دیر لگاتے ہیں؟۔۔۔ خدارا کتاب خواں نہ بنئے، صاحبِ کتاب بنئے!