عموما نعت کے اشعار کو ایک "مقدس سماعت” کے حصول کی وجہ سے تنقیدی نظر سے نہیں گزارا جاتا. یہی وجہ ہے کہ ادبِ اردو کی دیگر اصنافِ سخن پر تنقیدی مباحث روز افزوں ترقی و تدریجی نمو پارہے ہیں. لیکن نعت کا میدان سنجیدہ تنقیدی تبصروں کے ذیل میں ہنوز تشنہ لبی کا شکار ہے.
ایک کرمفرما کا حکم نامہ موصول ہوا کہ ایک نعت پر تنقیدی جائزہ درکار ہے. تعمیلِ ارشاد میں خامہ عجلت نشاں نے جس بے ربطی کو قالبِ حرف میں ڈھالا ہے وہ پیشِ خدمت ہے.
کوئی علمی اور ادبی پس منظر نہ رکھنے کی بناء پر تنقیدی اصطلاحات سے یکسر بے بہرہ ہوں. ایک عام قاری کی حیثیت سے زیرِ نظر نعت پر چند نکات عرض کرنا چاہتا ہوں. جن کے نادرست ہونے کی صورت میں محترم اصحابِ فضل و کمال اگر کمالِ شفقت سے متنبہ فرمالیں تو سعادت جانوں گا.
١..رب نے اس شان سے آقا کے سنوارے عارض
چاند سے بڑھ کے ضیاء بار وہ پیارے عارض
مضمون افرینی نہ ہوتے ہوئے بھی بہت خوب مطلع ہے. مطلع پر دو ایک پہلوؤں سے بات ہوسکتی ہے. میری رائے میں ضیاء باری اور چمک کے ساتھ سنوارنے کا فعل مکمل ارتباط نہیں رکھتا. پہلے مصرعے میں سنوارنے کی جا چمکانا، دمکانا وغیرہ کے مفہوم کا لفظ زیادہ انسب ہوتا.
رخِ انورِ حبیب علیہ السلام گرچہ حسی نورانیت رکھتا تھا. جس کا تذکرہ سیرت نگاری میں مذکور ہے. باوجود اس کے نعتیہ ادب میں بہر حال شعراء عہد گزشتہ و حال افراط کا شکار رہے ہیں. سرکار علیہ السلام کے رخ انور کی چمک کو چاند کی چمک سے بڑھ کر سمجھنا عقیدت اور محبت کا اظہار تو ہوسکتا ہے لیکن عملی طور پر ظاہر ہے یہ حقیقتِ واقعی نہیں ہے. نرا مبالغہ ہے. نعت گوئی میں اس روییے کی حوصلہ شکنی اور حقیقی سیرت نگاری کو فروغ دینا چاہئے.
٢..کاش اس شان سے محشر میں ہو اپنی آمد
خاکِ طیبہ سے ہوں معمور ہمارے عارض
آمد کے لفظ پر پہلے بات ہوسکتی ہے. محشر میں حاضری ہوگی آمد نہ ہوگی. آمد کے لفظ میں ایک دبدبہ اور اپنی آمد کے مہتم بالشان ہونے کا ذکر ہے. جو ظاہر ہے قطعا مناسب نہیں. مزید برآں آمد میں اختیار اور ارادہ جھلکتا ہے. جب کہ محشر میں "طوعََا او کرھََا” ہر اختیار والے اور بے اختیار کو حاضر ہونا پڑے گا.
اسی شعر کے دوسرے مصرعے میں معمور کا لفظ چست نہیں بیٹھ رہا. معمور/ آباد ہونا خاک کے اثری صفت میں سے نہیں ہوسکتا. نیز اگر شاعر اپنے عارض کیلئے معمور کی صفت ثابت کررہا ہے تو ویران اور سنسان بھی پھر عارض کی صفت ماننا پڑے گا.
٣..جلوہء یار سے سیراب وہ ہوتے کیونکر
خوب دیتے تھے صحابہ کو نظارے عارض
خیال بہت عمدہ ہے. لیکن بہرحال لفظی تشکیل میں عجزِ بیانی خیال کے ابلاغ کا حق ادا نہیں کرپائی. شاعر اس شعر میں جو بات کہنا چاہ رہا ہے. نثر میں اس کا بیان کچھ یوں بنتا ہے کہ
"یار/ سرکار علیہ السلام کے جلوے سے صحابہ کیسے سراب ہوتے. جب کہ عارض صحابہ کو خوب نظارے دیتے…… ”
کچھ محسوس ہوا.؟
اگر نظارے خوب مل رہے ہیں تو سیراب کیوں نہیں ہورہے. جواب دیا جاسکتا ہے کہ سرکار علیہ السلام کی زیارت سے بھلا کب سیرابی ممکن ہے؟
تسلیم.. لیکن اس دفع دخل مقدر کیلئے شعر میں کوئی اشارہ موجود نہیں ہے.
نیز عارض کا معطی ہونا، عارض کی فاعلی حیثیت بھی محل نظر ہے
٤..بولے جبریل نہیں مثل محمد کوئی
میں نے دیکھے ہیں جہاں بھر کے ہی سارے عارض
بھئی واہ کیا عمدہ شعر ہے. نعت کا سب سے پر اثر شعر ہے. شاعر کیلئے ڈھیر ساری داد. بس ذرا دوسرے مصرعے میں "ہی” اگر اضافی نہیں تو بیجا ضرور ہے. ہی کا درست مقام سارے کے متصل بعد ہونا چاہیے تھا. نثر میں صورت کچھ یوں بنتی ہے.
میں نے جہاں بھر کے سارے ہی عارض دیکھے ہیں
٥..پھر بھلے جان نکل جائے فعل” کی آقا
جیتے جی دیکھ لے اک بار تمہارے عارض
عمدہ مقطع ہے. لیکن جیتے جی کا محاورہ کھٹک رہا ہے. سرکار علیہ السلام کی زیارت ظاہر ہے اب خواب / منام میں ہی میسر ہے. اور جیتے جی کا محاورہ عمومی طور پر بیداری کیلئے مستعمل ہے.
ممکن ہے یہ میرا خام خیال ہو. اہل زبان سے رہنمائی کی درخواست ہے