…. رُوس اور امریکا میں سرد جنگ کے خاتمے کے باوجوددونوں عالمی طاقتوں میں کسی نہ کسی محاذ پر کھینچا تانی چلتی رہتی ہے۔اگرچہ عالمی مالیاتی فنڈ اس جانب توجہ نہیں دے سکا لیکن اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ رُوس اس وقت دُنیا بھر میں سونے کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔
اس سال جنوری میں رُوس کے مرکزی بینک نے دنیا کے تمام مرکزی بینکوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ سونے کی خریداری کی۔
اعدادو شمار کے مطابق بینک روس کے جنوری 2016کےدوران کرہ ارض کے تمام مرکزی بینکوں کےمقابلےمیں سونے کا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے ۔
آئی ایم ایف ماہرین کے مطابق روس کے مرکزی بینک نے جنوری میں چھ لاکھ اٹھاسی ہزار اونس سونے کی خریداری کی۔چین شماریات میں شامل نہیں تھا۔اطلاعات کے مطابق چین کے مرکزی بینک نے جنوری میں سونےکی پانچ لاکھ بیس ہزار اونس خریداری کی۔
بینک آف روس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ روس کے سونے اور کرنسی کے ذخائرمیں 3اعشاریہ2ارب ڈالر سےتین سو اڑسٹھ اعشاریہ تین ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہےجس کے بعد روس کے سونے اور کرنسی کے ذخائر میں سونے کی مدمیں52ارب ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
جرمنی کے ایک اقتصادی ماہرکے مطابق ’’یہ روس کا عظیم ڈالر پر خاموش حملہ ہے‘‘۔رُوسی صدر پیوٹن محسوس کرائے بغیرسونا خریدتے رہتے ہیں۔سیاسی حلقے رُوس اور مغرب کے درمیان نئی سرحد جنگ کا خدشہ ظاہر کرتے رہتے ہیں حالانکہ یہ جنگ مالیاتی شعبے میں پہلے ہی شروع ہوچکی ہے۔
جرمن ماہرین اقتصادیات کے مطابق پیوٹن امریکا اور یورپ کی طاقت کوکمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سونا خریدنے والے لوگ ہی ان کے عالمی تسلط کے خلاف مغربی کرنسیوں کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیںاور یہ دنیا پراپنا غلبہ قائم کرنے کے لئےپیوٹن کی منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے۔
اسی طرح چینی اقتصادی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر سونے کی خریداری کے ذریعے امریکی کرنسی کی بالادستی کو کچلا جا سکتا ہے۔
ماہرین ِ اقتصادیات کا خیال ہے کہ روس کی جانب سے سونے کی بڑے پیمانے پر خریداری کا مقصد ڈالر پر انحصار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ جغرافیائی و سیاسی حکمت عملی کے طور پر مغرب روس کے خلاف پابندیاں سخت کر رہا ہے۔
ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق روس نے 2014ء میں سونے کی قیمتوں میں گراوٹ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 55ٹن قیمتی دھات خریدی جو دوسرے ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی۔
جرمنی اپنا سونا امریکا سے واپس لانے کی کوشش میں ہے جہاں اس نے اپنے سونے کے ذخائر پٹے پر رکھے ہیں۔ امریکا نے ایک موقع پر جرمن سونے کی واپسی کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ امریکا نے جرمن آڈیٹرز کو اپنے ذخائر کے معائنے کی اجازت تک نہیں دی۔
اگرچہ جرمن سونے کے ذخائر امریکا کے بعد دنیا میں دوسرے سب سے بڑے ذخائر ہیںلیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جرمنی کے سونے کے دو تہائی ذخائر سمندر پار رکھے ہیں۔ –