مولوی صاحب! اگر کچھ عرض کروں تو…

ابھی ہم بھاولپور سے کراچی آئے ہی تھے کہ بچوں کے حفظ قرآن کو جاری رکھنے کی فکر ہوئی۔ تینوں بچے جو بہاولپور میں قران حفظ کررہے تھے۔ کینٹ میں ہی مسجد کے خطیب صاحب نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں بچوں اور بچیوں کیلیے مدرسہ بنایا ہوا تھا، ساتھ چھوٹی سی مسجد بھی تھی۔ گھر میں ان کی اپنی اہلیہ اور بچے بھی وہیں بچوں کیساتھ ہوا کرتے ۔غرض پورا ایک فیملی ماحول تھا . ہم نے بھی اپنے تینوں بچے وہیں بھیجنا شروع کیے۔ ساتھ ہی کچھ عرصہ ہم بھی اپنے کچھ پارے جو حفظ کیے ہوئے تھے ان کو ازبر کرنے کے لیےبچوں کے ساتھ جانے لگے۔

الحمدللہ ! جب کراچی پوسٹنگ ہوئی تو ایک کا قرآن مکمل ہو چکا تھا جبکہ چھوٹے دونوں کا بھی نامکمل تھا ۔ ارسل ،ارقم ابھی دونوں چھوٹے تھے مگر انہوں نے بھی الحمدللہ حفظ قرآن کا بہت اچھا اسٹارٹ لیا تھا۔ مجھے یاد ہے ارسل کلاس ٹو اور چھوٹو جو اس وقت پریپ سے ون میں آیا تھا،دونوں کو سکول سے اٹھا لیا تھا کہ اب ایک ساتھ ہی کرلیں تینوں (شروع سے یہی ارداہ تھا کہ تینوں بچوں کو حفظ کرانا ) چھوٹو مدرسے کا منا تھا اور لاڈلا تھا، قاری صاحب کی گود میں بیٹھ کر سبق سنایا کرتا مگر حفظ میں اس قدر تیز نکلا کہ جب ہم وہاں سے آئے تو ارسل کا نواں پارہ تھا اور چھوٹو کا ساتواں اسے اپنی منزل ،سبقی اور سبق سب اس قدر ازبر تھا کہ ان پاروں میں سے کہیں سے بھی کوئی آیت پڑھ دی جائے تو وہ یہ بتا دیا کرتا تھا کہ یہ کس پارے کے کس پاؤ کے کون سے رکوع کی آیت ہے ۔

اب کراچی جیسا شہر جہاں مدرسوں کی بہتات ۔۔۔۔ مگر پہلا دن جب کہ بڑی خوشی خوشی اک مشہور مدرسہ میں بھیجا بچوں کو ۔۔۔۔۔ شام میں بچے منہ لٹکاتے واپس آئے تو پوچھا کیا ہوا ؟؟؟ جواب ملا ٹوپی نہیں پہنی ہوئی تھی تو قاری صاحب نے اندر ہی نہیں بیٹھنے دیا ۔۔ افسوس کے سواء کیا کرسکتے تھے ۔۔ خیر اگلے دن دوسرا مدرسہ تلاش کیا گیا ۔۔۔ وہاں سے بھی واپس آئے تو ایک نئی کہانی تھی ۔۔۔ ارسل ارقم دونوں ایک سال سے حفظ کررہے تھے ۔ مخارج اتنے خوبصورت اور درست تھے کہ اپنے ہونے والے امتحان میں ارسل فرسٹ اور چھوٹوکو اعزازی نمبر ملے تھے۔۔۔ مگر یہاں قاری صاحب نے کہا کہ وہ تو قاعدے سے پڑھائیں گے جو ساتواں اور نواں پارہ چل رہا وہاں سے نہیں پڑھائیں گے ۔۔۔ خیر وہاں سے بھی واپس آگئے۔

اب ایک جگہ بڑی مشکل سے بٹھاآئے ۔۔۔ دو دن بچے گئے تو تیسرے دن ارسل (جو اس وقت آٹھ سال کا تھا ) نے آکر کہا: ماما کیا مولوی صاحب کو ایسی باتیں کرنی چاہیے؟ وہاں تو قران ہوتا ہے نا سامنے! میں نے پریشانی میں پوچھا: کیسی باتیں ؟؟؟ اس نے جواب میں بہت جھجھکتے ہوئےمولوی صاحب کا سنایا ہوا لطیفہ سنایا ، جسے سن کر میرا رنگ فق تھا کہ ہم تو ایسے لطیفے عام لوگوں سے بھی نہ سن سکیں کجا یہ کہ مدرسہ کے مولوی صاحب ۔خیر میں نے اسی لمحہ یہ فیصلہ کیا کہ بھئی یہاں نہیں بھیجنا بچوں کو ۔اگلے دن پھرمدرسہ تلاش مہم جاری تھی ۔۔۔۔

ایک ہفتہ تک یہی رہا ۔۔ پھر ایک مدرسہ بتایا گیا وہاں بھیجا ۔۔ بچے ایک ہفتہ گئے۔ میں پچھلے مدرسوں کی صورتحال سے کافی پریشان ہوچکی تھی اس لئے بچوں سے پورے دن کی تفصیلات لازمی سنتی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مدرسہ بھی چھڑانا پڑا اور پھر بالاخر یہ فیصلہ کیا کہ بچے حافظ قرآن بنیں نہ بنیں مگر ایک اچھے انسان ضرور بن جائیں، یہ تیتر بٹیر والی کیفیت سے تو نکلیں ۔

اسلام آباد والے دھرنے نے جو جوہر عیاں کیے، آج اپنے اس فیصلے پر دل مزید مطمئن ہوگیا ۔۔۔۔ یقینا سارے مدارس اور ساری مولوی حضرات ایک جیسے نہیں ہوتے مگر جو اچھے ہیں ان کی تعداد کچھ زیادہ نہیں اور اسی سبب وہ اچھے نمایاں نہیں ہوپاتے اور معاشرے میں جو تاثر بنتا وہ یہی جو آجکل بنا ہوا ۔

اب ذرا تذکرہ مولویوں کے مخالف طبقہ کا ۔ مولویوں پر تنقید کرنے والے خود بھی وہی ہیں جو اپنے ہر جملے میں انگریزی کے تین حروف ادا کرکے ویسے ہی شانتی محسوس کرتے ہیں جیسے کہ یہ دھرنا کے کچھ مولوی صاحبان لمبی لمبی مغلظات بک کے ۔ کاش! کوئی ان کو بھی وہ سکھا دیتا تو انگریزی کی انگریزی ہوجاتی اور گالی کی گالی ۔۔۔ اچھے ماڈرن اسکولوں سے پڑھے ہوئے بچوں کی زبان کبھی سنئے تو اندازہ ہوگا کہ انگریزی نے جہاں ہمیں بہت کچھ ادھار دیا وہاں ایسی ایسی گالیاں بھی عنایت کیں کہ جنہیں سن کے آپ کے کانوں سے دھواں نکلنے لگے ۔

تو صاحب! یقینآ گالیوں کا رواج ہرطبقے میں کافی ہے۔۔۔ تاہم جولوگ اسلام کے نمائندے ہیں انھیں ایسی لغویات سے خود کو بچانا عام لوگوں کی نسبت زیادہ ضروری ہوتا ہے۔۔ اگر آپ بھی وہی سب کچھ کریں گے تو آپ کا محاسبہ ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ ہوگا ۔۔۔ آپ جس دین کے داعی ہیں وہاں زبان کے غلط استعمال کی گنجائش نہیں ملتی ۔۔۔۔ اس لیئے کہ جب آپ اسلام کا چوغہ پہن کر کوئی غلط بات کرتے ہیں تو اس کی آڑمیں اسلام پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

پچھلے ایک ہفتہ میں جتنی تضحیک کا نشانہ اسلام خود اسلام کے ٹھیکداروں کی وجہ سے بنا شاید ہی اس کی مثال کہیں ملتی ہو ۔۔۔۔۔ تو صاحب ۔۔۔! آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے