کچھ عرصے سے بعض پاکستانی اخباروں میں ترکی کے متعلق یہ خبریں وقفے وقفے سے گردش کر رہی ہیں کہ حکومت ترکی نے (یہاں مراد صدر رجب طیب ایردوان کی ذات سے ہے) میڈیا پر قدغنیں لگا کر آزادانہ اظہار رائے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں، ناپسندیدہ کالم نگاروں کو عدالتی کارروائی کے ذریعے نہ صرف جیلوں میں بھیجا جا رہا ہے، بلکہ اخباری انتظامیہ کو ہٹا کر ان کی جگہ ہم خیال میڈیا نمائندوں کو مقرر کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں دو ترک روزناموں ”زمان“ اور ”جمہوریت“ کی مثالیں دے کر یہاں کے کچھ کالم نگار ترک حکومت پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ حکومت اپنے مخالفوں کی آواز دبانے کے لیے یہ حربہ استعمال کر رہی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں ترکی مخالف خبروں کی ترسیل حیرت انگیز بات ہے۔ یہاں کے کالم نگار حضرات یقیناایسا جان بوجھ کر نہیں کر رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ترکی کے سیاسی و معاشرتی حالات سے ان کی کم خبری ہے۔ چوں کہ وہ اپنے کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے یورپی میڈیا کا سہارا لیتے ہیں اور یورپ ہمارا کتنا مخلص ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے وہ ترکی کے موجودہ حالات کی یک رخی تصویر کشی کر رہے ہیں۔
یہ ناقابل فہم بات ہے۔ کسی بھی باوقار میڈیا چینل یا اخبار کے لیے روا نہیں کہ وہ کسی برادر ملک کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے مصدقہ ذرائع کو اختیار نہ کرے۔ایک ایسا ملک جس نے یہاں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہو، اس ملک کے حالات کی یک رخی تصویر دکھانا کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے عوام میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کے سامنے صحیح صورتحال آ سکے۔
اب آتے ہیں ترک حکومت پر لگائے جانے والے الزامات کی اصل حقیقت کی طرف۔”زمان“ نام نہاد اسلامی تنظیم جو پوری دنیا میں ”گولن تحریک“ کے نام سے معروف ہے، کا نمائندہ اخبار ہے۔ اس تحریک کے کرتا دھرتا فتح اللہ گولن امریکا میں پناہ گزیں ہیں۔ ترکی کی ایک عدالت نے چند مہینے پہلے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ترکی میں ایک ایسی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ ہیں، جس نے موجودہ ترک حکومت یعنی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا تختہ جبر اور تشدد کے ذریعے الٹنے کی کوشش کی ہے۔
واضح رہے کہ آج کل ترکی میں ”متوازی ریاستی ڈھانچہ“ اور ”فتح اللہ گولن دہشت گرد تنظیم“ کے نام سے مشہور اس تنظیم کے خلاف نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک میں بھی عدالتی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال ہی کافی ہو گی۔ اس تنظیم سے منسلک ”کانسپٹ اسکولز“ کے تحت امریکا کے مختلف شہروں میں سرگرم عمل انیس اسکولوں کے بارے میں ایف بی آئی نے جون 2014ءمیں سنگین فراڈ کی تحقیقات شروع کی تھی۔ ایک عدالتی فیصلے کی رو سے مذکورہ ”متوازی ریاستی ڈھانچے“ نے پولیس، عدلیہ اور فوج جیسے حساس ادارے میں اپنے حامی پیدا کیے، مسلح دہشت گرد تنظیم قائم کی، دھمکیوں کے ذریعے لوگوں سے پیسا لوٹا اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے خرچ کیا، قومی سلامتی کے متعلق ایسی معلومات جن کا اخفا ضروری تھا، جاسوسی کی غرض سے انھیں حاصل کیا اور پھر انھیں اخبارات میں شایع کروایا گیا۔ ان الزامات کے ثابت ہونے پر عدالت نے ان لوگوں کو ملازمتوں سے بر خاست کر دیا۔ بعض کو جیل بھیج دیا گیا۔ چند لوگ جن میں ”زمان“ اخبار کے صحافی، چیف ایڈیٹر اور ایک پبلک پراسیکوٹر بھی شامل ہیں، فرار ہو کر یورپ میں پناہ گزیں ہوگئے۔ قومی سلامتی کے خلاف بر سر پیکار ”متوازی ریاستی ڈھانچہ“ کو ملکی سلامتی کے خلاف عناصر کی کیٹگری میں شامل کر لیا گیا ہے۔ چوں کہ اس اخبار کی انتظامیہ مذکورہ بالا ”متوازی ریاستی ڈھانچہ“ کی سرگرمیوں میں ملوث تھی اور سہولت کار کے طور پر کام کر رہی تھی، چنانچہ استنبول کے پبلک پراسیکوٹر نے مارچ کے شروع میں زمان اخبار کی انتظامیہ کو مضبوط دلائل کی بنیاد پر ہٹا کر ان کی جگہ غیر جانب دار انتظامیہ کو مقرر کر دیا۔ جہاں تک ”جمہوریت“ اخبار کے کالم نگار جان دوندار، اَردم گل اور ان جیسے دیگر صحافیوں کا تعلق ہے، وہ بھی قریب قریب مذکورہ بالا الزامات کے تحت گرفتار کر کے جیل بھیج دیے گئے تھے۔
اب عدالتی کارروائی کے نتیجے میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ ترکی کی عدالتوں میں جن صحافیوں کے خلاف آج کل مقدمہ چل رہا ہے، ان میں سے کوئی بھی صحافتی یا پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی وجہ سے جیل میں نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ مذکورہ بالا جاسوسی سرگرمیوں کی وجہ سے جیل میں ہیں۔ رہی بات صدر رجب طیب ایردوان کی طرف سے چند صحافیوں اور سیاست دانوں کے بارے میں عدالت میں چلائے گئے مقدمات کی، تو کوئی بھی غیرت مند اور باوقار آدمی اپنی ذات یا اپنے کسی فیملی ممبر کے بارے میں ہتک آمیز زبان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا عدالتی کارروائیوں کو ان صحافیوں اور سیاست دانوں کے ساتھ شخصی خصومت اور آمریت پسندانہ مزاج سے منسوب کر کے تنہا صدر رجب طیب ایردوان کی ذات کو مجروح کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ ان الزامات نے اس وقت جنگ کی صورت اختیار کیوں کی ہے؟ اس کا جواب ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ یہاں اتنا بتانا ہی کافی ہے کہ اندرونی و بیرونی میڈیا نے دنیا بھر میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے حق میں بین الاقوامی سطح پر مسلسل آواز بلند کرنے کی پاداش میں صدر رجب طیب ایردوان کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ ”متوازی ریاستی ڈھانچہ“ نامی دہشت گرد تنظیم 2012ءسے مسلسل جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے مختلف مزاجوں اور پیشوں کے لوگوں کو بطور آلہ استعمال کر رہی ہے۔مزید یہ کہ یہ تنظیم ترکی کے خلاف عالمی سازش کا بھی حصہ ہے۔ آخری بات یہ کہ حال ہی میں ہونے والی ایک رائے شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترک عوام کی بڑی اکثریت ”متوازی ریاستی ڈھانچہ“ نامی مشکوک سرگرمیوں کی حامل تنظیم کے خلاف کی جانے والی عدالتی کارروائی کی حمایت کرتی ہے!
(ڈاکٹر دُرمُش بُلگر پنجاب یونی ورسٹی کی مولانا رومی چیئر برائے ترک ثقافت کے سربراہ، استنبول یونی ورسٹی کے سابق استادِ اردو اور معروف محقق ہیں۔ اردو زبان میں ان کی کئی تحقیقی کتب، مقالات اور تراجم شائقین علم و ادب سے داد و تحسین وصول کرچکے ہیں۔)