اس میں طلسم تھا، وہ بہادر بھی تھا یہ وہ خاص باتیں ہیں جو عام میں نہیں ہوتی ہیں۔ چلیں وہ نباض تھا لہٰذا اپنی ”نبض شناسی“ سے وہ عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیتا لیکن وہ شاعر کی غزل کی طرح تخیلاتی، جمیل اور فصاحت کے سبب دل پذیر بھی تھا۔ غزل ہی نہیں اس میں نظم کی طرح بلاغت، موسیقیت، شگفتگی اور مقصدیت بھی تھی۔ کہانی کی گہرائی، افسانے کے رنگ اور کسی اخباری کالم کی سی سہ جہتی بھی اس کی زندگی کا خاصا تھا۔ اس پرچم کے سائے تلے چاہنے والوں نے جہاں اسکی چاہت کا علم بلند کیے رکھا وہاں اسی پاک سرزمین پر اس سے نفرت کرنے والوں کو بھی کمی نہ تھی۔ اسکی ساری سیاسی زندگی نفرت اور محبت کا آمیزہ رہی اور موت پر سیاست محبت اور نفرت کے رنگ نمایاں تھے۔ چشم فلک نے اس طرح کے نشیب و فراز رکھنے والا سیاستدان نہیں دیکھا۔ وہ خود تو اچھا تھا یا برا یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن بے شمار قائدین کی قیادت کا سبب بھی وہ تھا، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کسی مولوی کے ہاں جتنی شدت سے اس کےخلاف شعلہ بیانی تھی وہ اتنا ہی مقبول ٹھہرا۔ حتیٰ کہ موت پر ہونے والی تقریروں میں کسی نے کہا کہ دھرتی سے بوجھ کم ہوا سو مٹھائیاں تقسیم کرو اور لاکھوں افراد کیلئے اسکی موت شہادت بھی ٹھہری۔
عجیب شخص تھا، کوئی اس سے نفرت کے سبب معتبر ٹھہرا اور کوئی محبت کی بنیاد پر لیڈر۔ پاکستانی سیاسی کہانی کا ایک اور ”عظیم“ کردار جو مولویوں کیلئے محض اس وجہ سے مولوی ٹھہرا کہ، وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دوستوں کی صف سے نکل کر دشمنوں میں آکھڑا ہوا۔ اس جنرل ضیاءالحق کی بھی لوگوں نے پوجا کی، حب ضیاءتو اصل میں بغض آ کھڑا ہوا۔ اس جنرل ضیاءالحق کی بھی لوگوں نے پوجا کی، حُب ضیاءتو اصل میں بغض تھا مگر حُب لفظ ایک وقت پر آ کر جنرل ضیاءالحق کیلئے چھوٹالگا کیونکہ مخالفین بھٹو نے حُب کے کئی زینے چڑھتے ہوئے، عشق کو بھی پیچھے چھوڑ کر ”پوجا“ کی بلندیوں کو پالیا چونکہ پوجا کے رنگ پھیکے اور عارضی ہوتے ہیں، اب جنرل ضیاءالحق کا کوئی دربار ملتا ہے نہ درباری۔ لیکن سیاست کی دنیا میں بھٹو کا دربار بھی موجود ہے اور درباری بھی۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بھٹو کے درباریوں اور مجاوروں میں بھی عقیدت کے عناصر کی جگہ عقیدت فروشی، دربار فروشی اور سیاست فروشی کے سوغات، عنوانات، اقدامات، ثمرات اور انتظامات زیادہ ہیں!! سیاسی مزاح کی ایک حالیہ سنگینی ملاحظہ فرمائیے کہ لوگ کہتے ہیں: ”پی پی پی جو کام جنرل ضیاءتمام نہ کر سکا وہ آصف علی زرداری نے کر دیا“۔ خیر سیانے یہ بھی کہتے ہیں بد سے بدنام برا، اور شرافت وہ جو کیش ہو جائے۔ اب یہ شرافت والی بات ”شریفوں“ سے زیادہ کون جانتا ہے، وقت وقت کی بات ہے جیت کو تو کئی باپ مل جاتے ہیں تاہم ہار کا کوئی باپ نہیں ہوتا۔
واپس ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی اور متنازعہ و غیر متنازعہ زندگی کی طرف آتے ہیں، جس میں جہد مسلسل ہے اور عزم کے سنگ سنگ زیرک پہلو بھی ۔ سیموئل پال ہننگٹن نے اپنی معروف مگر متنازعہ کتاب ”تہذیبوں کا تصادم اور از سر نو ورلڈ آرڈر“ (1997) میں بھٹو کی اس تھیوری کو تسلیم کیا جو بھٹو نے اپنی کتاب "If I am Assasinated” لکھی تھی۔ تہذیبوں کے تصادم کی وجہ کمزوری اور قوت کا فرق ہے حقیقت یہی ہے کہ بقا کیلئے قوت حاصل کرنی پڑتی ہے استعمال ہو یا نہ ہو، قوت ضروری ہے اور بھٹو نے بذریعہ جوہری توانائی طاقت کی بنیاد رکھ دی تھی۔چاہت و محبت کی بلندیاں چھونے والا کوئی لیڈر بھی ایسا ہو گا کہ جس کے جنازے کو کندھا دینے والے دو ہاتھوں کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں لیکن جتنے دلوں میں وہ دل کی دھڑکن بن کر رہتا تھا انہیں شمار کرنا ممکن نہیں تھا، نفرت والے دل بھی بہرحال ان گنت تھے۔ بھٹو کے کئی قصور ہونگے لیکن 1973ءکا آئین دینا، مرزائیوں کو اقلیت قرار دینا، اسلامی سربراہی کانفرنس کا پاکستان میں 1974ءمیں انعقاد کرانا اور مسلمانوں کو ایک بلاک میں مستحکم اور منظم کرنے کی کاوش، تھرڈ ورلڈ کی بازگشت کا برپا کرنا تاریخ پاکستان اور جدید تاریخ اسلام میں قابل ستائش اور انتہائی پراثر واقعات ہیں۔ جوش خطاب میں باکمال، ٹیبل ٹاک میں بے مثال، سفارتکاری اور خارجہ امور میں بے عدیل‘ محفل کی جان بن جانے میں یکتا ذوالفقار علی بھٹو شملہ جیسے معاہدوں میں تو رنگ جما سکا لیکن مولوی کو نہ سمجھ سکا نہ سمجھا سکا، آخر مولوی کی لکھت پڑھت پر مبنی مخالفت اور ضیائی ظلمت کی گٹھ جوڑ کے سبب 5جولائی 1997ءکو بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا اور 4اپریل 1979ءکو بھٹو تخت والا تختہ دار تک پہنچ گیا! میرا بچپن تھا، میں چوتھی سے پانچویں کلاس میں ”مفتومفت“ چلا گیا، امتحان نہ رزلٹ، تتلی کے تعاقب والی اس عمر میں ہمیں تو بحران اچھا لگا۔ اس وقت کا سب سے بڑا میڈیا مولوی تھے۔ پھر اس عمر میں جمعہ نہ پڑھنے پر ماں سے مار بھی پڑتی تھی۔
ہم نے انہی دنوں میڈیا کے دو روپ دیکھے، قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے پر مولویوں نے بھٹو کے کلمے بھی پڑھے، پھر ضیاءاسٹیبلشمنٹ کے خطبوں کے اثرات میں ایسے جمعة المبارک بھی پڑھے جس میں مولوی پورا جمعہ ہی بھٹو پر پڑھا دیتا کہ، وہ فلاں سے برا اور فلاں فلاں سے زیادہ بُرا ہے۔ ہاں! میڈیا، میڈیا ہی ہوتا ہے مولویانہ ہو یا الیکٹرانک یا اخباری۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب شیخ مجیب کے 6نکات کیخلاف سخت لائن لی۔ یعنی 11 تا 15 جنوری 1971ءکے صدر مملکت جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ کا دورہ کیا، پھر لاڑکانہ میں بھٹو کو بھی آ کر ملا اور یہ تاثر بھی دیا کہ ”میں مستقبل کے وزیر اعظم سے مل کر آ رہا ہوں“۔ اسکے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بھی کہا کہ 15 فروری 1971ءوالے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں جائینگے اور نشتر پارک کراچی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا جس کی آزاد اخبار (15مارچ1971ئ) نے سرخی جمائی ”ادھر تم، ادھر ہم“ (اور کسی نے یہ سرخی نہ جمائی)۔ سیاق و سباق سے ناآشنا اس سنسنی خیز صحافت نے ”جنون“ کو نئی تاریخی راہ دی! ہاں میڈیا، میڈیا ہی ہوتا ہے وہ بات جو بھٹو تردید کے طور کہتے رہ گئے وہ بات شائع بھی ہوئی لیکن متذکرہ سرخی نے کب کچھ سرخ کر دیا۔ یہ سرخی سرخوں کے ”سرخائے“ ہوئے معاملات کو بھی مغلوب کر گئی۔ حالانکہ بات جو کہی گئی، جو سامنے آئی، جو تردید بھی بنی اور تصدیق بھی، وہ یہ تھی کہ ”نہ میں نہ تم، ہم دونوں اور ایک پاکستان“۔واضح رہے، راقم تجزیہ دے رہا ہے نہ وکالت کا ارادہ ہے، ایک اوپن اینڈڈ بات چھوڑنے کی تمنا ہے کہ وقت ، حالات اور قاری خود سمجھے اور خود غورکرے! ضیائی الیکشن (غیر جماعتی) 1985ءبڑے سہی لیکن بات یہی سمجھ میں آئی کہ جمہوریت ناگزیر ہے۔ 1988ءمیں ضیاءازم کو بھٹو ازم نے شکست سے دو چار کیا۔ وہ جو پھانسی کی وجہ بنی یہ بات کہ بندے دو اور قبر ایک۔ 88ءالیکشن دو بندے تھے اور دونوں دو قبروں میں تھے۔ ایک قبر دوسری قبر سے بہر حال جیت گئی۔ الیکشن 88ئ، الیکشن 1990، الیکشن 1993، الیکشن 1997ءاور آخری الیکشن 2002 تک لاڑکانہ والی قبر غالب رہی اور رفتہ رفتہ بہت بڑے جنازے والی قبر مغلوب ہو گئی جو کبھی بھٹو کو چھوڑ ضیائی ہوئے، ان میں سے کئی نئی بھٹو گویا بے نظیر بھٹو کے کارواں میں آ گئے۔ میاں نواز شریف کا کارواں جو ضیاءشہید نے بنایا تھا، وہ کارواں آج خود مختار ہے، جمہوری بھی، صاف ظاہر ہے جب جمہوری ہوا تو ضیاءکارہا نہ ضیائی قبر کا۔ ہم نے اپنے گنہگار کانوں سے مولویوںسے لیکر مسلم لیگیوں تک، جنرل حمید گل سے جنرل چشتی تک اور حامد ناصر چٹھہ سے نواز شریف و شجاعت حسین تک اور قاضی حسین‘ پروفیسر عبدالغفور سے لیاقت بلوچ تک کو بھٹو کو لیڈر مانتے سنا حتیٰ کہ صاحبزادہ مفتی محمود (مولانا فضل الرحمن)، نوابزادہ نصر اللہ خان و علامہ احسان الٰہی ظہیر تک کو دیر آید درست آید بھٹو دوم کے ساتھ چلتے دیکھا۔ بھٹو اوّل، بھٹو دوم (بے نظیر بھٹو) کے بعد بھٹو سوم دور جاری ہے۔ بھٹو دھکے سے لگا یا صحیح لگا بہر حال بلاول کے ساتھ لگ گیا اور بھٹو کو ماننے والوں نے اسے مان بھی لیا مگر زرداری صاحب کے لگائے ہوئے ”پانچویں گیئر“ نے بھٹو کی گاڑی کو بند گلی میں ڈال دیا۔ پی پی کا معروف نعرہ ہے ”کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے!“ ہاں، کل تو زندہ تھا، آج زندہ ہے، یہ کون ثابت کرےگا؟ سیانے کہتے ہیں پی پی پی کی شیلف لائف مکمل ہو گئی۔ فاتح قبر کو زندہ پیپلز پارٹی نے مفتوح بنا دیا۔ کیا بھٹو کرشمہ ختم پیسہ ہضم؟ کسے کہیں آج کا بھٹو؟ کسی زندہ کو، مردہ کو یا شہید کو؟؟؟ بھٹو تو وہی کہلائے گا جس میں جمہوری تہذیب ہو گی!!!