بھٹو

بھٹو
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی برسی پر ایک بنیادی سوال دامن گیر ہے: سوال یہ نہیں آ پ بھٹو سے مریضانہ نفرت کرتے ہیں یا مجنونانہ عقیدت رکھتے ہیں، سوال یہ ہے کہ جس طریقے سے ان کی جان لی گئی کیا وہ درست، جائز اور منصفانہ طریقہ تھا؟ ۔۔۔۔بھٹو کے بارے میں سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس میں وفاق کے معاون وکیل کی حیثیت سے جو میرے مشاہدات ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔

لیکن آغاز ان نفسیاتی گرہوں سے جن کے ساتھ میں جوان ہوا۔میرا تعلق اس نسل سے ہے جسے بھٹو نفرت کا زہر فکری وراثت میں دیا گیا۔بھٹو کا ذکر چلے تواپنے بچپن کے دن یاد آ جاتے ہیں۔کس شرح صدر کے ساتھ ہم کندھے اچکا کر کہہ دیا کرتے تھے: بھٹو تو اسلام کا دشمن تھا۔شاید اس لیے کہ گاؤں میں ہمارے خاندان کے مفادات مذہبی سیاست سے وابستہ تھے۔چنانچہ دین کی تعبیر کے جملہ حقوق ہمارے نام محفوظ تھے اور ہمارا خاندان اپنی ساری’ ہم نصابی سر گرمیوں ‘کے باوجود اس بات کا استحقاق رکھتا تھا کہ کھڑے کھڑے کسی کی بھی اسلام دوستی کا آ ملیٹ بنا دے۔چنانچہ جب قبلہ امیر المومنین بقلم خود نے ریفرنڈم میں سوال پوچھا: اسلام چاہتے ہو؟ اور شرح یہ رکھی کہ چاہتے ہو تو پھر میں اگلے پانچ سالوں کے لیے نفاذ شریعت کے لیے صدر بن رہا ہوں تو مردِ مومن مردِ حق کے لیے نعرے لگا لگا کر ہمارے گلے بیٹھ گئے۔ہمارے گاؤں میں صرف تین ووٹ نکلے جنہوں نے مردِ مومن کی اصل واردات کو سمجھا اور کہا ؛نہیں چاہتے۔بس پھر کیا تھا، ہم شریف سائیکلوں والے اور ڈاکٹر پھینا کی دکانوں کے آگے سے گزرتے تو نفرت سے تھوک دیتے۔کم بختوں نے اسلام دشمنی میں حد ہی کر دی تھی۔ہم سب راسخ العقیدہ مسلمان تھے ،تھوڑی دیر بعد منہ اٹھاتے اور چیختے: مردِ مومن مردِ حق۔۔۔۔۔آج سوچتا ہوں جہالت کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ہم کتنے آسودہ تھے۔

جب میں نے اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کی کلاس میں داخلہ لیا تو ملک معراج خالد یہاں کے ریکٹر تھے۔ان کا تعلق پی پی پی سے تھا اور میں صالحین کے گاؤں سے آیا اپنی ذات میں ایک چھوٹا سا امیر المومنین تھا۔پہلا سوال ہی امیر المومنین صاحب نے یہ سوچا: اسلامک یونیورسٹی میں ملک معراج خالد کا کیا کام؟میری گستاخیاں بڑھتی گئیں،خبر ملک معراج خالد تک پہنچ گئی۔ایک روز میری طلبی ہوئی۔شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر ایس ایم اے رؤف نے حکم دیا جاؤ تمہیں ریکٹر صاحب نے طلب کیا ہے۔جل تو جلال تو کا ورد کرتے حاضر ہوا تو یہاں کا منظر ہی اور تھا۔چند منٹ کی ملاقات کے بعد جب میں باہر آیا تو محسوس ہوا دل وہیں چھوڑے جا رہا ہوں۔تعلق بڑھتا گیا۔ایک شام میں اورافتخار سید ملک معراج خالد کے گھر گئے تو اندر سے قرآن کی تلاوت کی آواز سنائی دی۔ملک صاحب کے سارے احترام کے باوجود میں نے حیرت سے پوچھا: افتخار یار یہ تو مذہبی آدمی ہیں۔افتخار نے طنزیہ کہا: امیر المومنین صاحب کسی اور کو بھی مسلمان سمجھ لیا کرو۔۔۔۔ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا تھا۔تب پہلی دفعہ میں نے سوچا ،جہالت کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ہم اپنی خیالی دنیا میں کتنے آسودہ تھے۔
ایک روز ملک معراج خالد نے مجھے ایک کتاب دی اور کہا: اسے ضرور پڑھنا۔کتاب کا نام تھا”The Myth of Independence”۔یہ ایک نئے بھٹو سے میرا تعارف تھا۔اس بھٹو کو تو میں جانتا ہی نہ تھا۔فیصل مسجد کے شمال میں ایک درخت تلے بیٹھ کر ایس ایم اے روؤف صاحب کی کلاس بنک کر کے میں نے یہ ساری کتاب پڑھ ڈالی۔بار بار یہ خیال آتا رہا: اگر یہ کتاب بھٹو کی ہے تو بھٹو سے نفرت کیسے کی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔اپنا گاؤں یاد آیا۔ساتھ وہی خیال پھر آیا:جہالت کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔

شریعہ اکیڈیمی کی لائبریری کھنگالتے کھنگالتے ایک روز یہ انکشاف ہوا کہ اس ملک میں شراب پر پابندی اسی اسلام دشمن بھٹو نے لگائی تھی تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ایک روز میرے ہاتھ پارلیمنٹ کی وہ ساری کارروائی لگ گئی جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔پہلی بار مجھے علم ہوا یہ کام بھی بھٹو کے دور میں ہوا تھا۔اب کے میں نے بھٹو کو اپنی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔فکری اور نظری بیساکھیاں میں نے ایک طرف پھینک دیں اور اللہ کا شکر ہے آج تک ان کا سہارا نہیں لیا۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ نے اعتراض کیا تو بطور وزیر اعظم پاکستان بھٹو نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی وہ ہمت حوصلہ اور ویژن کا شاہکار ہے۔آج کی دنیا میں کوئی اپوزیشن رہنما بھی اس لہجے میں امریکہ کا ذکر نہیں کر سکتا۔اتنی جرات اور اتنا ویژن۔فیض نے ٹھیک ہی تو کہا تھا:

’’ کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کیا لوگو
یہ کس کو تم نے سر دار کھو دیا لوگو‘‘

وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا اور ایک وقت آیا صدر پاکستان نے سپریم کورٹ میں بھٹو کی پھانسی پر صدارتی ریفرنس فائل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔وزیرقانون ڈاکٹر بابر اعوان نے اس کیس میں مجھے بھی معاون وکیل کے طور پر منتخب کرنے کا عندیہ دیا۔انکار کی گنجائش ہی نہ تھی ،میرا تو یہ دلچسپی کا موضوع تھا۔بطور معاون وکیل جب میں نے اس کیس کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو حیرتوں کے جہاں مجھ پر وا ہوتے گئے۔اتنا تو مجھے اندازہ تھا کہ بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہوئی لیکن اس ناانصافی کا انداز اتنا شرمناک ہو گا اس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔جس جج کو بھٹو نے ترقی نہیں دی تھی وہ ناراض ہو کر رخصت پر بیرون ملک چلا جاتا ہے ، اس دوران ملک میں مارشل لاء لگتا ہے۔اسی جج کو بلا کر چیف جسٹس بنا دیا جاتا ہے۔وہ جج نجی محفلوں میں کہتا ہے بھٹو کو چھوڑوں گا نہیں۔بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کرتا ہے تو کہتا ہے سوچ کر ووٹ دیا کرو ورنہ تم پر بھٹو جیسے لوگ مسلط ہوتے رہیں گے۔تعصب اور نفرت صاف عیاں ہے۔بھٹو درخواست کرتے ہیں آپ متعصب ہیں اس لیے یہ کیس نہ سنیں، جواب آتا ہے آپ کی درخواست مل گئی پہلے کیس کا فیصلہ کر لیں پھر آپ کی درخواست کو بھی دیکھ لیں گے۔بار بار منصب انصاف سے ارشاد ہوتا ہے تم سمجھتے کیا ہو خود کو؟سیلن زدہ کوٹھری میں بھٹو کو سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔درخواست آتی ہے سماعت ملتوی کر دی جائے، سرکاری ڈاکٹر بھی کہتا ہے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ، اس کے باوجود شنوائی نہیں ہوتی۔جو جج بھٹو کی ضمانت لیتے ہیں ان کا وہ حشر کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے راستے ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔جس نے شراب پر پابندی لگائی، جس نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا اسے عدالت نام کا مسلمان کہتی ہے۔بھٹو اس پر احتجاج کرتے ہیں لیکن عدالت اپنے الفاظ پر نادم نہیں ہوتی۔قتل کے بعد اس کی لاش کو برہنہ کر کے تصویر اتار کر ضیاء الحق کو دکھائی جاتی ہے تا کہ وہ تسلی کر سکے بھٹو کافر تھا یا مسلمان۔امیر المومنین کی تسلی تو ہوئی یا نہیں معلوم نہیں لیکن تقدیر کا جبر دیکھیے مردہ بھٹو بھی ضیاء کے ساتھ کیا کر گیا۔بھٹو کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی ایک معمہ ہے۔اس پر چار اپریل کی بجائے تین اپریل کی تاریخ ڈلی ہے۔ پھر ایک جگہ پر کاٹ کر کچھ ٹھیک کیا گیا ہے۔ڈیتھ سترٹیفکیٹ پر ڈاکٹر کے دستخط ہی موجود نہیں۔ ( یہ سارا ریکارڈ میں نے برادر مکرم وجاہت مسعود کو دے دیا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں میرے پاس شاید ضائع ہو جاتا ۔وجاہت کا علمی ذوق اسے محفوظ رکھے گا۔وجاہت اگر بھٹو کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ شیئر کر دیں تویہ چیز ملاحظہ کی جا سکتی ہے ) یہ سب کیا کہانی بیان کر رہے ہیں؟

ہمارا المیہ یہ ہے ہم خانوں میں بٹ چکے ہیں۔ہمارے دکھ بھی سانجھے نہیں رہے۔ہمارے اپنے اپنے مظلوم ہیں اور ہم صرف اپنے مظلوموں پر ہونے والے ظلم کی مذ مت کرتے ہیں۔بھٹو صرف پی پی پی کا نہیں تھا۔اپنے مزاج کی ساری خامیوں کے باوجود وہ ایک قومی لیڈر تھا۔وہ ہم سب کا تھا۔دکھ صرف پی پی پی کا نہیں کہ بھٹو میرا بھی تو تھا۔تعصب کی بات الگ ورنہ یہ برائے وزنِ بیت نہیں ایک حقیقت ہے کہ بھٹو زندہ ہوتا تو آج ہم ایک قوم ہوتے۔شناخت کے بحران میں ٹامک ٹوئیاں نہ مار رہے ہوتے۔شاید اسے مارا ہی اس لیے گیا تھا کہ ایک قوم پرست رہنما پرائی جنگوں کا ایندھن بننے کو تیار نہ ہوتا۔اس کے بعد ہمارے ساتھ جو ضیاء الحقیاں ہوئیں ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے