"خوف کی سیاست”(The politics of fear)

پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ "خوف پھیلانے کی سیاست” (Politics of fear) کے ذریعے دہشت گردی کی جنگ کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ 2001 سے سیکیوریٹی اور حکومتی عہدیداروں نے بم دھماکوں کو سہولت کے ساتھ ان جگہوں سے منسلک کر دیا جہاں انھوں نے فوجی آپریشن کا پہلے سے فیصلہ اور تیاری مکمل کر لی ہوتی تھی۔ رحمان ملک کی "تمام کڑیاں جنوبی وزیرستان سے ملتی ہیں” جیسے بیانات سے لے کر موجودہ حکومت کی شمالی وزیرستان "دہشت گردی اور عسکریت کا گڑھ ہے” کے اعلانات، سب کے سب فوجی آپریشن تبھی ہوئے جب حکومت نے شہروں کے اندر دھماکوں کو اپنے من پسند جگہوں کے ساتھ منسلک کیا، جہاں انھوں نے آپریشن کرنا تھا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ تمام آپریشن اس سے تھوڑی ہی عرصے پہلے امریکی عہدیداروں کے "ڈو مور” مطالبات میں سے کلیدی مطالبات ہوتے ہیں۔ تازہ ترین امریکی مطالبہ جنوبی پنجاب میں آپریشن ہے جو کہ بھارت مخالف گروپوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

حالیہ تاریخ میں سب سے پہلے "خوف پھیلانےکی سیاست” کی طاقت جارج بش نے دریافت کی، جب اس نے نائن الیون واقعات پر اس سیاست کا استعمال کر کے افغانستان پر حملے کیلئے رائے عامہ ہموار کی۔ ملک کے اندر جارج بش نے ہوم لینڈ سیکیوریٹی کا نیا ڈیپارٹمنٹ بنایا، NSA کو نگرانی اور جاسوسی کرنے کے کھلے اختیارات دئیے اور کانگرس سے پیٹریاٹ ایکٹ پاس کروایا جس سے سیکیوریٹی کے نام پر لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں سیکیوریٹی اداروں کو مداخلت کا کھلا حق دے دیا اور لوگوں کے حقوق سلب کر لئے۔

اس "خوف پھیلانے کی سیاست” کا طرز یہ ہے کہ سانحات کو استعمال کرکے پالیسی معاملات پر ہر بحث ختم کر دی جائے اور معاشرے کو پولرائز کیا جائے اور اس کیلئے نفرت، انتقام اور حب الوطنی کے جذبات کو استعمال کر کے عوام کی نظروں میں ایک ولن کھڑا کر دیا جائے جس ولن کا فیصلہ حکومت وقت کرے گی۔ درحقیقت یہ جذباتیت کی یہ فضا ہی تھی، جس میں جارج بش نےعراق میں وسیع پیمانے پر تباہی والے ہتھیاروں کا افسانہ گھڑا اور ایک تباہ کن جنگ کا آغاز کر دیا جس سے عراق اور پورے مڈل ایسٹ میں دسیوں لاکھ مسلمان جان بحق ہوئے۔ یہ یہی خوف کی سیاست ہی تھی جس نے بش انتظامیہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ اپنی مرضی کا ولن تشکیل دے کر لوگوں سے منوا سکے تاکہ اپنی مرضی کی جنگ کو چھیڑا جا سکے۔

پاکستانی حکومت نے خوف کی سیاست کا یہ طرز امریکی حکومت سے مستعار لیا ہوا ہے۔ میں نے بہت پڑھے لکھے اور بظاہر باشعور افراد کو کہتے سنا ہے کہ پارلیمنٹ کے باہر موجود مولویوں کو ڈرون سے اڑا دینا چاہئے، یا پشتوں فاٹا کے قبائل پر بمباری بالکل صحیح ہے کیونکہ انھوں نے دہشت گردوں کو پیدا کیا ہے یا یہ کہ ریاست ان تمام مدارس پر چھاپے مار کر ان کو بند کر دے یا ان پر ٹینکوں سے بمباری کر کے برباد کر دیا جائے، یا تمام اسلامی سیاسی ورکروں کو پھانسی پر چڑھا دینا چاہئے یا اس طرح کے مختلف نسخے۔ ایسے خیالات یقیناً ریاست کی جانب سے سانحات کو "خوف پھیلانے کی سیاست” کیلئے استعمال کرنا کا نتیجہ ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کو سمجھیں کہ ہم بطور معاشرہ ایک گہرے منجدھار میں ہیں اور عقلی طرز استدلال سے کام لیں۔ عقلی طرز اسدلال کا تقاضا ہے کہ ہم ان معاملات کی جڑ اور تناظر پر جائیں۔ یہ مسئلہ کب اٹھا؟ کن حالات نے اس مسئلے کو جنم دیا؟ یہ عسکریت ، یہ اموات، یہ تباہی، یہ بربادی تب ہی ہمارے ملک میں اس شکل میں آئی جب ہم نائن الیون کے بعد امریکی جنگ کا حصہ بنے۔ اور اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ ہم اس تباہ کن اور خودکشانہ جنگ سے مکمل فوجی اور سیاسی ناطہ توڑ لیں۔ صرف یہی اس قتل عام کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے