مصطفیٰ کمال کی "پاک سر زمین” کا نظام کیا ہوگا؟

پاکستان میں ہمیشہ ایک خاص قسم کی سوچ کو اقتدار کے ذریعے عوام پر مسلط کیا جاتارہا ہے۔ قارئین اِس سوچ کو پروان چڑھانے والوں میں جمہوری روایتوں کے نگھبان سے لیکرآمرانہ رویوں کے ترجمان تک شامل ہیں۔ مذکورہ بالا دونوں قوتوں میں ایک تو اقتدار کی حوس میں مبتلااسے ابدی دوام بخشنے کی آرزومند ہے دوسری طاقت اپنے نظریات کے تحفظ اور مرتب کردہ پالیسیوں کے پیشِ نظراپنے اصولوں کی پابند ہے۔ اقتدارکے اِس سنگھاسن سے سیاستدانوں نے دوری اختیار کی نہ اشرافیہ نے اپنی گرفت کمزور ہونے دی۔دو طاقتوں کی آپس کی رسہ کشی نے ہر طرف بے یقینی کی صورتحال پیدا کررکھی ہے۔ جبکہ حالات کی ستم ظریقی یہ رہی کہ اِن دو طاقتوں کے بیچ عوامی جذبات کاہمیشہ خون ہوتارہا ہے رسہ کشی کا یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری ہے۔ جس کی تازہ مثال سیاسی افق پر اچانک نمودار ہونے والی پاک سرزمین پارٹی ہے جس کے سربراہ جناب مصطفی کمال نے حق پرستوں کو وطن پرستوں کی صفوں میں شامل کرنے کاٹھیکہ لے رکھا ہے۔

کمال صاحب واضح پالیسی کے بنا جس طرح عجلت میں انڈے ڈنڈے بھنڈی لوکی کا مقابلہ کررہے ہیں اِس سے معلوم پڑتا ہے کہ پاک سرزمین کے اصل مالکین بہت زیادہ جلدی میں ہیں جنکی ہر ممکن کوشش ہے کہ 2018 ء میں منعقد کئے جانے والے عام انتخابات سے قبل پاک سرزمین پارٹی کو عوام میں جتنی ممکن ہوسکے مقبولیت دلائی جائے تاکہ عام انتخابات میں کامیابی کیلئے ماحول سازگار بنایا جاسکے۔ لہذا اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے پہلے مرحلے میں کراچی حیدرآباد میرپورخاص سمیت اندرونِ سندھ میں پارٹی کو مضبوط کرکے پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی پھیلایا جائے۔ کہنے کو ابھی عام انتخابات میں دو سال کا عرصہ باقی ہے لیکن اتنا وقت بطور ایک نومولود سیاسی جماعت کے قومی سطح پر عوامی مقبولیت حاصل کرنا اتنا آسان بھی نہیں۔

میدان سے باہر خاموش تماشائی بنی حکمراں جماعت سمیت پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں بڑے اطمنان کے ساتھ کراچی حیدرآباد کی نمائندہ جماعت کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر کافی مسرت محسوس کررہی ہیں اور اُس خاموش طوفان سے بے خبر ہیں جو کراچی کے ساحل سے اُمڈ کر کشمیر کی چٹانوں سے ٹکرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ فلحال یہ عتاب متحدہ قومی موومنٹ پر آیا ہوا ہے جہاں جہاں سے مصطفی کمال کا قافلہ گزرتا ہے متحدہ کے کارکنان مزید عتابی زد میں آنا شروع ہوجاتے ہیں جس کی ایک مثال میرپورخاص میں ایم کیوایم کے زونل آفس پر پولیس کی جانب سے چھاپہ مار کاروائی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کا پہلاعوامی جلسہ 24 اپریل کو ہونے جارہا ہے اِس حوالے سے پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کی ہر ممکن کوشش ہے کہ جلسے میں زیادہ سے زیادہ عوام شرکت کریں لہذا عوامی روابطہ مہم کا سلسلہ کراچی حیدرآباد سے نکل کر اندرونِ سندھ پہنچنے کو ہے۔

دوسری جانب ہاتھ پیر بندھے مجبور و لاچار متحدہ قومی موومنٹ چپ سادھے وقت و حالات کے دھارے میں بہتے ہوئے خاموش پالیسی اپنائی نظر آتی ہے۔ جوکہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر بہتر حکمتِ عملی ہے لیکن مستقبل کی سیاست پر یہ پالیسی اپنا کیا اثر چھوڑتی ہے آثار کچھ اچھے نظر نہیں آتے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے ٹھان رکھی ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں متحدہ کوایک سیٹ بھی نہیں دینی لیکن اِس بارے ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ کراچی کی سیاست پاکستان کے دیگر حصوں سے بالکل مختلف ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ ایم کیوایم کا ووٹ بینک توڑنے کیلئے پہلے ہی کئی حربے آزما چکی ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، لیکن اِس دفعہ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار نظر آتے ہیں لہذا قوی امکان ہے کہ اِس دفعہ رزلٹ ماضی سے مختلف ہو۔ جب کہ اندرونِ سندھ میں بھی کچھ اِسی قسم کی سیاست جنم لے رہی ہے اورپاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ جناب پیرصدرالدین شاہ راشدی کی قیادت میں سندھی قوم پرستوں کا اتحاد سندھ ڈیموکریٹک گرینڈالائنس متحرک ہوچکا ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سائیں پیر صاحب پگارہ کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مثبت تعلقات ہیں لہذا مستقبل میں ممکن ہے شہری سندھ سے متحدہ قومی موومنٹ اور اندورنِ سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کا صفایا کرنے کیلئے پاک سرزمین پارٹی سندھ ڈیموکریٹک گرینڈ الائنس کا سیاسی اتحادہوجائے۔

دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ پنجاب سے بھی مصطفی کمال کی تلاش میں ہے اورسنا ہے کہ وہ اپنے اِس مقصد میں کافی حد تک کامیابی حاصل کرچکی ہے مسلم لیگ ن میں سے فارورڈ بلاک بنائے جانے کی خبریں محو گردش ہیں لہذا پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کا اثر توڑنے کیلئے مسلم لیگ ق کے طرز کی سیاسی جماعت بنائے جانے کاقوی امکان ہے۔اِسی طرح کے پی کے میں آجائیں جہاں پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہے جبکہ بلوچستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ بلوچ نیشنل پارٹی پر ہاتھ رکھ سکتی ہے اِس طرح عام انتخابات سے قبل چاروں صوبوں سے فارورڈ بلاکس پر مشتمل جماعتوں کا ایک قومی اتحاد بنایاجائے گا جس کی قیادت دبئی میں بیٹھا وہ شخص کریگا جس کیلئے یہ سارا اسٹیج تیار کیا جارہا ہے وہ شخص جنرل پرویز مشرف ہونگے جو مذکورہ بالا تمام جماعتوں پر مشتمل اتحاد کی قیادت کرینگے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی اِن کوششوں میں کامیاب ہوپاتی ہے یا نہیں جب کہ ساتھ میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام اسٹیبلشمنٹ کے اِس کردار کومثبت لیتے ہوئے اسکی حمایت کرتے ہیں یامخالفت خاص کر ایسے حالات میں جب عوام پہلے ہی تبدیلی کے خواں ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے