”سیاپا فروشی” کا مرکز شریف خاندان

کوئی بڑا کاروبار کرنا ہو تو ایک کمپنی بنائی جاتی ہے۔ اس کمپنی کا ایک مالک ہوتا ہے۔ مجوزہ کاروبار کا حجم اس مالک کی مالیاتی حیثیت سے زیادہ ہوتو وہ شراکت کار ڈھونڈتا ہے۔ وہ سب مل کر اپنی کمپنی کو رجسٹرکرواتے ہیں۔ کسی بینک سے قرضہ لینا ہو تو جائیدار وغیرہ گروی رکھ کر مزید سرمایہ حاصل کرتے ہیں اور دھندہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دھندہ شروع ہوکر منافع کمانا شروع ہوجائے تو ریاست اس منافع میں سے ٹیکس کے نام پر کچھ حصہ وصول کرتی ہے۔ ٹیکس کے ذریعے جمع شدہ رقوم سے ریاستی نظام کو چلانے کے ساتھ ساتھ خلقِ خدا کی تعلیم، صحت، رہائش اور دیگر معاملات میں بہتری لانے کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔

کوئی بھی کاروباری دھندہ ریاست کی نظر میں اس وقت ”گندا“ ہوجاتا ہے جب اس سے متعلقہ افراد اپنے منافع پر عائد محصولات کو مختلف حیلوں بہانوں سے ادانہ کرنے کی عادت اپنالیں۔ سچ مچ کی باقاعدہ ریاستوں کی نظر میں یہ عادت سنگین ترین جرم سمجھی جاتی ہے۔

اس جرم کی سنگینی اور اہمیت کو سمجھنا ہوتو بس اتنا یاد کرلیجئے کہ امریکہ کے ایک شہرئہ آفاق گاڈفادر کے خلاف قتل اور دیگر گھناﺅنے جرائم کے واضح ثبوت نہ مل پائے تو اسے عبرت کا نشان بنانے کے لئے ٹیکس چوری کے الزامات کے ذریعے سخت ترین سزائیں دلوانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔

کاروباری کمپنیاں قائم کرنے اور ان کے منافعوں سے واجب محصولات وصول کرنے کے باقاعدہ نظام اور کڑے اصول وقوانین کے ہوتے ہوئے بھی ترقی پسند ممالک ہی کے چند جید کاروباری افراد نے ”آف شور“ کمپنیاں قائم کرنے کا چلن ڈالا تھا۔ سرمایہ دارانہ ممالک نے اپنی روایتی منافقت کی بدولت ان کمپنیوں کے قیام اور بے پناہ فروغ میں ہرگز کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔

ان کمپنیوں کے بارے میں اصل خدشات کا اظہار 80ءکی دہائی میں شروع ہوا جب دُنیا بھر میں منشیات فروشی کے ذریعے حاصل ہوئے بے تحاشہ سرمایے کو ”جائز کاروبار“ کے لئے استعمال کرنے کا رحجان شروع ہوا۔ تمامتر تحفظات اور خدشات کے باوجود ”آف شور“ کمپنیوں کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اگرچہ تب بھی نہ اٹھایا گیا۔ آف شور کمپنیوں کی سرمایہ کاری کو ایک حوالے سے بلکہ نظرانداز کیا گیا کیونکہ یہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں روزگار کے نئے امکانات پیدا کررہی تھیں۔ روزگار کے ساتھ ہی ساتھ آف شور کمپنیوں کی لگائی رقوم نے لندن اور نیویارک جیسے شہروں میں چھوٹی سے چھوٹی جائیداد کے مالکوں کو بھی راتوں رات کروڑپتی بنانا شروع کردیا۔

دُنیا کے نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کو آف شور کمپنیوں سے اصل تکلیف نائن الیون کے واقعات سے ہونا شروع ہوئی۔ ان کمپنیوں سے حاصل شدہ رقوم کو ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے مختلف دہشت گرد تنظیموں تک پہنچنے کے ٹھوس ثبوت دریافت ہوئے تو وہاں کی ریاستوں کے کان کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد ”منی لانڈرنگ“ کے قوانین کو سخت سے سخت تر بنایا گیا۔ حتیٰ کہ کئی برسوں سے قائم شاندار ساکھ رکھنے والے بینکوں میں جمع یا ادا ہونے والی رقوم پر کڑی نگاہ رکھنے کا بندوبست بھی کیا گیا۔ آف شور کمپنیاں ان تمام اقدامات کے باوجود ان دنوں بھی اپنا دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ تجارتی جمود اور کساد بازاری کے خوف سے انہیں کسی نہ کسی صورت زندہ رہنے دیا جائے گا۔

اب تک میں نے اس کالم میں بیان کئے ہیں وہ حقائق جو مجھ ایسے معاشیات، مالیات، بینکاری اور محصولات کے نظام کے بارے میں قطعاََ لاعلم دو ٹکے کے رپورٹر کی سمجھ میں آئے ہیں۔ آئندہ کئی دنوں تک مگر میرے چند انتہائی پڑھے لکھے اور جی دار ساتھیوں کی بدولت آپ اخباری کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں آف شور کمپنیوں کا بہت ذکر سنیں گے۔
شوروغوغا کی بنیاد ہوں گی وہ خبریں جو Panama Papersکے ذریعے پیر کی صبح سے دُنیا بھر کے اخبارات کے صفحہ اوّل پر نظر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ Papersدرحقیقت وہ ٹنوں بھر دستاویزات ہیں جو Mossack Fonsecaنامی آف شور کمپنی سے متعلق ہیں۔ دُنیا کے 300صحافیوں اور 100کے قریب صحافتی اداروں نے باہم مل کر ان دستاویزات کا بغور جائزہ لیا۔ ان پر تفصیلی غور اور مناسب تحقیق کے بعد تحقیقاتی رپورٹنگ سے جڑی ایک تنظیم International Consortium of Investigative Journalismنے ان دستاویزات کو بیک وقت عوام کی سہولت کے لئے ایک ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے۔

ٹیکس چوری ہو یا آف شور کمپنیوں سے جڑے معاملات۔ ان کا ذکر آئے تو پاکستان کا تذکرہ بھی ہوکر رہتا ہے۔ Panama Papersمیں لہذا 200کے قریب پاکستانیوں کا ذکر بھی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی لیکن ان تمام افراد کا تفصیلی ذکر نہیں کرئے گا۔ صحافتی دھندے میں سیاپا فروشی کے لئے اہم رہے گا تو صرف تذکرہ ان جائیدادوں کا جو شریف خاندان کے نام سے منسوب ہوئیں اور ساتھ ہی وہ کمپنی جس نے کسی زمانے میں عراق سے خوراک کے بدلے تیل خریدنے میں حصہ لیا۔ رحمن ملک اس کمپنی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے شراکت دار رہے ہیں۔ محترمہ اس دُنیا میں نہیں رہیں۔ اس لئے بچت ہوگئی۔

سیاپا فروشی کا تمام تر مرکز لہذا شریف خاندان ہی رہے گا۔ وہ اس سیاپے سے کیسے نبردآزما ہوں گے؟ اس کا جواب دینا یا ڈھونڈنا میرا ذمہ نہیں۔ میری فریاد اور گزارشات جب بھی ہوئیں صرف اس حوالے سے ہوں گی جسے صحافتی دُنیا میں Big Pictureکہا جاتا ہے۔ Panama Papersپر آج سے جاری ہونے والا شوروغوغا ذرا تھم جائے تو اس ضمن میں اپنے خیالات آپ کے روبروپیش کرنے کا وعدہ ہے۔ فی الحال ریموٹ اٹھاکر لوگوں کی بھداُڑانے کا تماشہ دیکھئے۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے