یااللہ مدد میں بے قصور ہوں

قیوم نظامی اپنی کتاب میں زوالفقار علی بھٹو کے آخری دن کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں.

یااللہ مدد میں بے قصور ہوں” پھانسی تختہ پر کھڑے زوالفقار علی بھٹو نے نظریں آسمان کی جانب اٹھا کر کہا.3اپریل 1979 کو جب بیگم بھٹو اور بے نظیر آخری ملاقات کےلیے جیل آئیں تو بھٹو کو علم ہوگیا تھا کہ رات انھیں پھانسی دی جائے گی.پھانسی کی رات بھٹو نے شیو کی سفید شلوار قمیض پہنی زندگی کا آخری سگار پیا اور خواب آور گولی کھارکر سو گئے. رات کو دیر تک جاگنے کی عادت تھی دوبجے سوئےساڑھے تین بجے جیل سٹاف نے بھٹو کو سٹریچر پر ڈال لیا. جیل کی صعوبتیں انہوں نےبہادری سے برداشت کیں مگر ان کا وزن کم ہوچکا تھا. جب ان کو موت کی کوٹھری سے باہر لایاگیاتو ہوا لگنے سے ان کی غنودگی کم ہوئی اور ان کو احساس ہوا کہ انھیں پھانسی گھاٹ کی جانب لے جایا جارہا ہے تو وہ کوشش کر کے سٹریچر سے نیچے اتر آئے اور پیدل چلنے لگے.وہ سب سے آگے چل رہے تھے اور فوجی افسران ان کے پیچھے تھے. بھٹو پھانسی گھاٹ میں داخل ہوئے چند سیٹرھیاں چڑھ کر پھانسی کے تختےپر پورے قد سے کھڑے ہوگئے.عینی شاہد کے مطابق آخری منظر سے یوں لگ رہا تھاجیسے بھٹو چبوترےپر کھڑے سلامی لےرہے ہوں اور باقی سب افراد مودب کھڑے ہیں. بھٹو نے آسمان کی جانب دیکھا اور کہا "یااللہ مدد میں بے قصور ہوں” پھر اس کے بعد تارا مسیح نے رسی کھینچ دی. بھٹو کی روح پرواز کرگئی مگر ان کا رشتہ اور تعلق عوام سے ختم نہ کیا جاسکا. وہ مر کر امر ہوگئے اور قوم پرستی ,حب الوطنی
,حریت پسندی اور عوام دوستی کی علامت بن گئے. ان کی آخری خواہش پوری ہوئی.بھٹو اپنی آخری خواہش کے مطابق آج بھی تاریخ کے سینے میں اور عوام کے دلوں میں زندہ ہیں.
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں…..
جنرل ضیاء الحق کے رفقاء اور حامیوں کی تحریری اور زبانی شہادتوں سے ثابت ہوگیا کہ بھٹو کو سیاسی طور پر قتل کیا گیا. بھٹو کو عالم اسلام اور پاکستان سے محبت کی سزا دی گئی. ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول ان کا سب سے بڑا جرم تھا.سپریم کورٹ کے سات ججز میں سے تین ججز نے بھٹو کی سزا ختم کردی تھی.تینوں کا تعلق سندھ اور سرحد سے تھا.جبکہ پنجابی ججز نے سزائے موت بحال رکھی. دنیا بھر کے راہنماوں نے جنرل ضیاء سے بھٹو کی سزائےموت ختم کرنے کی اپیلیں کر رکھی تھیں مگر اس نے زاتی اقتدار کی خاطر بھٹو کی پھانسی کے احکامات جاری کر دیے.بھٹو کو رات کی تاریکی میں لاڑکانہ لےجایاگیا.بیگم بھٹو اور بےنظیرکو آخری دیدار کی بھی اجازت نہ دی گٰی.انھیں فوج کے سخت پہرے میں گڑھی خدا بخش میں سپردِ خاک کردیاگیا. دنیا کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار پی پی پی کے آٹھ غریب کارکنوں نے بطور احتجاج خود کو سرعام نذرِآتش کرلیا. ان پروانوں میں عبدالغفور, عبدالرشیدعاجز, یعقوب پرویز کھوکھر,منور حسن, راشد ناگی, جبکہ دوسرے شہیدوں میں ادریس طوطی, ادریس بیگ,رزاق جھرنا, عثمان غنی,ناصر بلوچ ,ایاز سموں, حمید بلوچ, نذیر عباسی, کلور براہمنی, عنایت مسیح,لالا اسد, موسی مینگل, میاں محمد اعظم.اورفقیر ہسبانی شامل تھے. جو پھانسی چڑھے یا پولیس کی گولیوں سے شہید ہوئے.

جو دیکھا جو سُنا..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے