جاوید احمد غامدی صاحب کہتے ہیں کہ قانون توہین رسالت اسلام کے خلاف ہے۔ کیسے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے آنجناب کا فرمانا تھا کہ قرآن کریم میں صرف دو جرائم ایسے ہیں جن کا ارتکاب کرنے پر انسان کو قصاصا قتل کرنے کا حکم ہے۔ پہلا قتل عمد اور دوسرا فساد پھیلانا یعنی دہشت گردی،جس سے صاف ظاہر ہے کہ توہین رسالت کے جرم میں پھانسی کی سزا دینا اسلام کے خلاف ہے۔غامدی صاحب کا استدلال کس حد تک درست ہے اس پر بات پھر کبھی سہی مگر سردست عرض یہ ہے کہ جناب عالی اسلام میں ذخیرہ احادیث سے بھی کچھ ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ غامدی صاحب ان واقعات کے بارے میں جن میں گستاخی رسول کے مرتکبین کو سزا دی گئی فرماتے ہیں کہ واقعات سے قوانین نہیں بنائے جاتے بلکہ وہ صرف تاریخ کے ریکارڈ کے لیے ہوتے ہیں۔ اچھا جی۔ ہوتے ہوں گے۔
انٹرویو کے دوران کچھ ہی دیر بعد جناب غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ قانون سازی اپنی ذات کے اندر ایک سیکولر عمل ہے۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہر بات قرآن و سنت سے ماخوذ ہو، ہم دنیا کے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں۔ انسانیت ایک دوسرے سے سیکھنے ہی کا نام ہے۔ آج اگر انگلستان، امریکہ یا آسٹریلیانے اپنے تجربات سے کچھ قوانین بنائے ہیں تو ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں اس میں کچھ برا نہیں ہے۔جی اچھا ٹھیک ہے جناب غامدی صاحب۔! لیکن اگر طبیعت کو گراں نہ گزرے تو ہمیں بتایا جائے کہ امریکہ، آسٹریلیا اور انگلستان کے تجربات ، واقعات اور قوانین سے سیکھ کر قانون بنایا جا سکتا ہے تو دور نبوی اور حیات صحابہ کے واقعات، تجربات اور قوانین سے سیکھ کر بنایا جانے والا قانون توہین رسالت کیسے معاشرے اور اسلام کے خلاف ہو گیا؟عجیب متضاد خیالی ہے کہ سوشل سائنسزاور بنیادی انسانی حقوق کے لیے مغرب کی طرف دیکھنا اچھا مگر اسی سوشل بی ہیویئر اور انسانی تقدس کے لیے قرن اول سے ہدایت کی روشنی لینا غلط۔۔
آگے چل کر میرے ممدوح غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام میں دو طرح کے احکام ہیں۔ فرد سے متعلق اور دوسرے وہ احکام جو حکمرانوں کی طرف متوجہ ہیں۔ تفصیل بیان کرتے ہوئے آنجناب کہتے ہیں کہ حکمران کا کام جمعہ وغیرہ چار احکام پر عمل کرنا ہے (کروانا نہیں) لیکن اس کا کام یہ نہیں کہ وہ مجھے لباس وغیرہ کے بارے میں کہے کہ کونسا پہننا ہے اور کونسا نہیں۔ یعنی معاشرت سے جڑے احکامات یا قوانین میں ریاست اور حکمران کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔عالیجاہ! مجھ جیسے کم علم کی سمجھ میں یہ بات نہ آ سکی کہ کاوئنٹر نیریٹو کے نام سے لکھے گئے اپنے کالم میں آپ نے فرمایا کہ قوانین معاشرہ بناتا ہے اور معاشرہ جس چیز کو بطور قانون قبول کر لے وہی حرف آخر ہے اور آج آپ فرما رہے ہیں کہ حکمران عورت کو سفر کے دوران محرم ساتھ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتا۔ جناب والا! ہمارا معاشرہ اگر ثقافتی پردہ کرنا چاہے اور طے کر لے کہ محرم کے ساتھ سفر کرنا ہے (جیسا کہ قرون اولی کے معاشرے نے کیا)تو کیا حکمران اور ریاست کو اس قانون کے نفاذ کے لیے جبر کرنے کی اجازت آپ مرحمت فرمائیں گے یا نہیں؟ کیا فرمایا: نہیں۔؟ جناب من جس مغرب کے تجربات سے سیکھنے کی آپ نے دعوت دی وہاں جب ہم جنس پرستی کے لیے قانون بنا (یاد رہے اسے سیکولر بنیادوں پر اسے استوار کیاگیا تھا)تو ان کا لبرل سیکولر حکمران وہی قانون نافذ کرنے کا مجاز بھی بن گیا، لیکن مسلمان معاشرے میں اگر اسی طرح کا کوئی قانون بن جائے تو آپ وہاں کے حکمران سے اسے نافذ کرنے کا اختیار چھین لینا چاہتے ہیں۔ آخر وہ کونسی گیدڑ سنگھی ہے جو مغربی حکمران کو انسان کے بنائے قوانین جبرا نافذ کرنے کا اختیارتو دیتی ہے مگر پاکستانی یا مسلمان حکمران سے وہ تمام اصول و ضوابط چھین لیتی ہے جو اسے دور نبوت اور قرن خیر کے ساتھ جوڑنے کے کام آئے؟ قطع نظر اس بات سے کہ خلافت کا قیام مسلمانوں کا فریضہ ہے یا نہیں معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی یہ سوال ضرور اٹھائے گا کہ اسلام کا کل سرمایہ اگر آپ کے بیان کردہ صرف چار احکام اور چند سزائیں ہیں وہ بھی اس صورت کہ احکام کا تعلق حکمران کے ساتھ صرف اس درجے کا ہے کہ وہ خود ان پر عمل کرے گا مگر عوام پر انہیں جبرا لاگو نہیں کرے گا تو پھر اسلام کے آفاقی مذہب ہونے کا کیا مطلب؟ کم و بیش تیرہ سو سال مسلمان حکمران صرف ان چار احکام اور چند سزاؤں کے لیے تخت خلافت پر متمکن ہوتے رہے تھے؟اور کوئی ایک بھی آپ کی طرح کا صاحب علم پیدا نہیں ہو سکا جو اسے بتا سکے کہ تیرا دائرہ اختیار جامع مسجد میں جمعہ پڑھانا، میدان کارزار میں جہاد کرنا اور زکوہ وصول کرنے کے سے زیادہ ہرگز نہیں ؟کیا معیشت کے بارے میں اسلام نے کچھ نہیں بتایا؟ اگر اسلامی مملکت میں کچھ لوگ سودی کاروبار کو فروغ دے رہے ہوں تو حکمران اور ریاست ستو پی کر سوتی رہے گی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندا ن کے جدی پشتی سود معاف کر کے ریاست کہ یہ سبق نہیں سکھایا تھا کہ نظام معیشت کو اسلامی احکام کے مطابق ڈھالنا بھی حکمران کے فرائض منصبی میں شامل ہے؟ قرآن نے زنا کی سزا بیان کی لیکن بردہ فروشی اور چکلہ چلانے کی سزا قرآن میں موجود نہیں ہے تو کیا ہمیں چاہیے کہ صحابہ کرام اور قرون اولی کے ادوار میں ایسے غلیظ دھندوں کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو پس پشت ڈال کر اسلامی مملکتوں میں سیکس شاپس کھول دیں؟ کیونکہ ہمیں قانون توہین رسالت کے لیے تو اسلامی تاریخ کے واقعات سے استدلال کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن دنیا کے تجربات سے سیکھتے ہوئے مغربی قوانین درآمد کرنا ضروری ہے؟ یادش بخیر بلاسفیمی لاء تو متمدن دنیا کی اکثر ریاستوں میں لاگو ہے پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین روکنے کے لیے مسلمانوں نے جو قانون بنایا وہ تو سرے سے اسلام ہی کے خلاف ہے مگر دیگر ریاستوں میں اسی طرح کا قانون ان کے تجربات کا ثمرہ؟؟؟ لگتا ہے آپ کا اسلام کچھ زیادہ ہی سکڑ گیا ہے۔
عالیجاہ! قانون سازی اگر اپنی ذات میں سیکولر ہوتی ہے تو ہوتی ہو گی لیکن سیکولر قانون سازی کے لیے صرف مغربی معاشرہ ہی کیوں قابل تقلید ہے؟ اگر دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہے تو ٹھیک ہے لیکن دنیا کے تجربات سے اسلامی دور حکومت سے صرف نظر کس اصول کے تحت ضروری ہے؟ اگر سوال کرنے والا اپنی لاعلمی کی بنیاد پر یہ پوچھے کہ چودہ سو سال میں کسی مسلمان نے آئین و قانون کیوں نہیں لکھا تو علمی بددیانتی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہنا کیونکر روا ہوا کہ معاشرہ جب جذباتی ہو تو علماء خوف کی وجہ سے حق بیان نہیں کر پاتے۔ کیا اس موقع پر آپ کو وہی امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کی جیل میں موت یاد نہ آئی جن کی بابت آپ نے شروع میں کہا کہ توہین رسالت کے بارے ان کا مسلک یہ اور وہ ہے؟ چلیں دیگر ائمہ کے قوانین مدون نہیں ہیں لیکن چار مشہور ائمہ کا نام تو ہر کسی کو منہ زبانی یاد رہتا ہے، پھر بھی آپ کوئی ایک نام نہ پکار سکے۔آخر کیوں؟ معاف کیجئے گا مگر عامر غوری جیسا عام سا ٹی وی اینکر آپ کے منہ میں اپنی بات ڈالتے ہوئے مجھے برا لگا لیکن اس کے سامنے آپ کی زبان پر حرف حق کا نہ آنا برا ہی نہیں بلکہ بہت برا لگا۔۔۔