مبارک ہو ۔ ہمارے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور میڈیا کے شاہینوں کو پانامہ پیپرز کی آڑ میں لامتناہی ، لا حاصل اور بے مقصد مباحث اور رائے زنی کے علاوہ نت نئے انکشافات کا ایک اور بہانہ یا جواز ہاتھ لگ چکا ہے۔ ایک ایسی قوم یا سوسائٹی اپنے علاوہ دوسروں کو بھی میرٹ ، اخلاقیات اور ذمہ داریوں کا احساس دلانے نکل آئی ہے جس کے 80 فیصد لوگ دوسرے مقامات تو ایک طرف مسجد میں لگے بلب کو چوری سے بچانے کیلئے زنجیر کے ذریعے باندھنے کے اعلیٰ اخلاقی معیار پر فائز ہیں اور جہاں سڑکوں کے کنارے لکھے اس مشورے یا اطلاع کے اس پورے فقرے کے ’’ یہاں پیشاب کرنا منع ہے ‘‘ سے بعض لوگ ’’ یہاں ‘‘ کا لفظ مٹانے کو اپنا اسلامی اور قومی فریضہ سمجھ کر پورا کرتے آ رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک اور معاشرے کے لوگ برطانیہ ، روس ، جاپان اور امریکہ کے حکمرانوں اور عوام کو اپنے زریں مشوروں سے نوازنے میں مصروف عمل ہیں جن کے تین سے چار کروڑ تک بچے اکیسویں صدی میں سکول جانے کی سہولت اور ضرورت سے محروم ہیں اور جن کے چھوٹے تو ایک طرف بڑوں کو بھی ائیر پورٹس پر زبردستی پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔
ایک ایسے معاشرے اور ملک کے حکمران ، سیاستدان اور تجزیہ کار ترقی یافتہ اقوام کو اپنے ’’ نابغہ روزگار‘‘ مشوروں سے نوازنے کے شوق دیوانگی میں سرگرداں ہیں جس کے 65 فیصد شہری اس دور میں بھی صاف پانی کی ضرورت سے محروم ہیں اور جس کے مذہبی اور اخلاقی معیار کا یہ عالم ہے کہ جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو اپنے جوتے چوری ہونے کے خوف سے اس جگہ پر رکھ لیتے ہیں جہاں وہ کائنات کے خالق کے سامنے سربسجود ہورہے ہوتے ہیں۔
ہمارے وہ اینکر ، صحافی ، کالم نگار اور دیگر گلے پھاڑ پھاڑ کر پاکستانی تو ایک طرف مہذب دُنیا کو اخلاقیات کا درس دے رہے ہیں جو کہ اپنی بے مثال کارکردگی اور ’’ خدمات ‘‘ کے باعث راتوں رات لکھ پتی سے کروڑ پتی بننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یہ معززین جب دوسروں کو نااہل ، چور اور کرپٹ قرار دیتے ہیں تو انسان کو افسوس کے علاوہ شرم بھی آنے لگتی ہے۔ غیر صحافتی پس منظر رکھنے والے نام و نہاد اینکرز اور تجزیہ کارتو حد ہی کرتے ہیں۔ ماضی میں گھٹیا فلموں کی تیاری میں شہرت رکھنے والے ایک ناکام ترین اینکر نے اپنے سفر کیلئے جہاز خرید رکھا ہے مگر وہ ہر شام ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر دوسروں کے بیڈ رومز اور نجی زندگی میں دخل دینے کی اپنی عادت کو بھی قومی مفاد کی آڑ میں معیوب نہیں سمجھتا ۔ ہم ایک ایسا اینکر رکھنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں جس نے چند برس قبل اپنے پروگرامز اور چرب زبانی کے ذریعے دُنیا میں قیامت کرنے یا لانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جس کا دس پندرہ سال میں ایک بھی تبصرہ یا تجزیہ درست ثابت نہیں ہوا۔
ہمارے بعض دانشوروں اور انگریزی دان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ روزانہ کے حساب سے امریکہ ، فرانس ،روس اور چین جیسے ممالک کو ایسے مشورے دے رہے ہوتے ہیں جنہیں سن کر ان ترقی یافتہ اقوام کو اپنی کم عقلی کا شدت سے احساس ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔ (یہ الگ بات ہے کہ ان کی فرمودات ان ہی تک محدود رہتی ہیں)۔
حالانکہ ہمارے حقیقی حالات کی حقیقی عکاسی بہت پہلے نامور شاعر اور تخلیق کار جون ایلیا کچھ یوں کر چکے ہیں ’’ ہمارے ہاں بیسویں صدی کبھی آئی ہی نہیں بلکہ وقت ہمارے بال کھینچ کر اور ہمیں جھنجھوڑ کر بیسویں صدی میں گھسیٹ کر لے آیا ہے ورنہ ہم تو حقیقت میں بارہویں صدی عیسویں کے لوگ تھے‘‘ ہمارے قانون ساز اداروں کی حالت ایک اور حقیقی دانشور نے کچھ اس انداز میں بیان کی ہے۔ ’’ جن مسائل پر اسمبلیوں میں بحث ہونی چاہیے وہ ہمارے ہاں حجام کی دکانوں پر ڈسکس ہوتے ہیں۔ واصف علی واصف کے بقول اینٹ کا اینٹ سے ربط کب کا ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے اعمال اور افکار کے ذریعے اپنی کتنی دیواریں گرا چکے ہیں۔ ہمیں دُنیا کے باشعور لوگوں کے اس متفقہ فارمولے ، ضرورت یا بات سے شدید نفرت ہے کہ ’’ دوسروں کے احتساب سے قبل خود کو احتساب کے عمل سے گزارنا لازمی ہے ‘‘
ہم جب چوری یا کرپشن کے الزام میں پکڑے جاتے ہیں تو جن لوگوں یا اداروں نے ہمارا احتساب کرنا ہوتا ہے وہ پہلا سوال کرتے ہیں کہ ’’ وہ مجھے یا ہمیں کیا دو گے ‘‘۔ اُس پر ستم یہ کہ ہم ہاتھ میں ہتھکڑی لگنے کے بعد بڑی شان و شوکت سے وکٹری کا مشہور زمانہ نشان بنانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ سب کو پتہ ہے کہ بحثیت قوم ہم میں سے اکثر لوگ کرپشن ، اختیارات کے ناجائز استعمال ، دوسروں کو نیچا دکھانے ، دوسروں کی حق تلفی بلکہ تھوک کے حساب سے انسانوں اور انسانیت کا خون بہانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور ان تمام ’’ اعلیٰ خصوصیات ‘‘ کو مہارت ، ذہانت اور کامیابی کے اسباب میں شمار کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اپنے گریبان میں جھانکنے اور خود احتسابی کا ذرہ بھر احساس دل میں لانے کو بھی جرم عظیم سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسی ، اپنے بھائی اور اپنے دوست کے دُکھ اور امداد کا کوئی احساس نہیں ہوتا مگر ہم دوسرے سیاروں پر پہنچنے والی اقوام کا مذاق اُڑانے اور ان کو مشورے دینے میں ذرا بھر دیر نہیں لگاتے۔
نامور فلسفی شاعر غنی خان کی ایک پشتو نظم کا خلاصہ ہے کہ اس مولوی کی شراب نوشی سے انکار کی کوئی اہمیت نہیں جس کو شراب سرے سے دستیاب نہیں ہو۔ ایمان کا پتہ تو تب چلے گا جب شراب آپ کے سامنے ہو اور آپ پینے سے انکار کریں۔ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو وہ لوگ برا سمجھتے ہیں جن کو یاتو مولوی کی طرح مواقع دستیاب نہیں ہوتے یا ان میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ورنہ ہم میں کوئی بھی ایسا کرنے کا معمولی سے معمولی موقع بھی ضائع نہیں کرتا ۔
سچی تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ ہم بہت خوش فہمیوں کے علاوہ بدترین قسم کی انفرادی اور اجتماع تہذیبی نرگسیت کا شکار ہو گئے ہیں اور صرف یہی رویہ ہماری اجتماعی تباہی کیلئے کافی ہے۔