خدا نہ کرے بیگم کلثوم نوازکو کراچی جانا پڑے !

یہ غالباًمارچ 2000ء کا واقعہ ہے

ابھی بیگم کلثوم نواز شریف لاہور اور اٹک قلعے کے درمیان سفر سے ہلکان ہو چکی تھیں مگر ابھی بھی ان کی ہمت باقی تھی ۔اسلام آباد میں بیگم عشرت اشرف کا گھر ان کا ٹھکانہ ہوتا تھا جہاں چوہدری جعفر اقبال اورنجمہ حمید کےعلاوہ کوئی تیسرا چہرہ نظر نہیں آتاتھا ۔وہ نواز شریف کی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں انہونے خدشات کا شکار تھیں لیکن انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اگلے چند دنوں بعد انھیں عمر قید کی سزا سنائی جائے گی ۔وہ چاہتی تھیں کہ ان کی جماعت اپنے لیڈر کے لئے کچھ کرے ۔شیخ رشید کو جب وہ کال کرنے کی کوشش کرتیں توفون ہی بند ملتا شاید انھوں نے نمبر بدل لیا تھا۔

ایک دن میں اور جاوید قریشی صاحب چوہدری شجاعت کے گھر گئے تو آگے کچھ لوگ فیتہ لے کر دیواروں کی پیمائش کر رہے تھے ۔میں نے کہا کہ جناب آپ کے لیڈر کی بیوی سڑکوں پر دھکے کھا رہی ہے اور آپ اپنے گھروں کی تزئین و آرائش پر لگے ہوئے ہیں ۔کہنے لگے کہ یہ جنہیں آپ مستری سمجھ رہے ہیں یہ احتساب بیورو والے ہیں ۔یہ کہتے ہیں کہ جو نقشہ آپ نے پاس کرایا اس میں آپ کی دیواریں 9 انچ موٹی ہیں جبکہ در حقیقت یہ 13 انچ موٹی ہیں ۔ 4 انچ زیادہ کرنے پر جو پیسہ صرف ہوا اس کا حساب دیں ۔چوہدری صاحب کہنے لگے اگر اس طرح ہمارا حساب لیا جائے گا تو پھر ہم نواز شریف کے ساتھ کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں ؟ان دنوں کلثوم نواز بہت پریشان تھیں مگر جس ہمت کا مظاہرہ وہ کر رہی تھیں اس کو دیکھتے ہوئے ان پر ایک عورت کا نہیں بلکہ جواں مردی کا گماں ہوتا تھا ۔

گھر کے سارے مرد پابند سلاسل اور وہ تن تنہا پیشیاں بھگتتی پھر رہی تھیں ۔اکثر اوقات جب ان کا دل بھر آتا تو گویا ہوتیں کہ شاید دورانِ اقتدار ہم سے کوئی لغزش ہو گئی تھی جس کی اللہ نے یہ سزا دی ہے ۔ پھر کہتیں کہ میاں صاحب کے کہنے پر میں فیصل آباد سے بھی ہو آئی ہوں اور فیصل آباد کی انتظامیہ کے ان دونوں خاندانوں سے بھی معافی مانگی ہے جنھیں آخری دنوں میں میاں صاحب نے اس وقت سر عام ہتھکڑیاں لگانے کا حکم دیا تھا جب عوام نے ان کے خلاف شکایات کی تھیں ۔ میں نے جا کر ان سے کہا ہے کہ آپ لوگ میاں صاحب کو معاف کر دیں شاید اس طرح ہماری تکلیفیں کچھ کم ہو سکیں ۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کرکہتیں کہ کہاں ہیں وہ ہیلی کاپٹر گروپ والے صحافی جو میاں صاحب کے قصیدے لکھتے نہیں تھکتے تھے آج میراایک بیان تک چھاپنے کو تیار نہیں ۔ میں اور برادرم زاہد جرال دو صحافی تھے جن کے ساتھ وہ نجمہ حمید کی موجودگی میں بہت ذاتی باتیں بھی کرلیتی تھیں ۔مثلاًکتنے ہی ایسے پیر فقیر تھے جن سے انھوں نے دعا کی درخواست بھی کی تھی

۔ بلکہ ایک روحانی عامل نے تو 90 روز کے اندر میاں صاحب کی رہائی کا مژدہ بھی سنا دیا تھا ۔یہ خبر کسی طرح حامد میر تک پہنچی تو انھوں نے ایک کالم بھی لکھ دیا کہ بیگم کلثوم نے شوہر کی رہائی کے لئے ایک عامل کی خدمات حاصل کر لی ہیں ۔یہ کالم جب شائع ہوا تو بیگم کلثوم بہت ناراض ہوئیں ۔وہ کہتیں کہ ہمارے علاوہ یہ بات کسی اور کو معلوم ہی نہیں تھی پھر یہ کیسے عام ہو گئی ۔ میں نے کہا کہ جس عامل کے پاس ہم لوگ گئے تھے اس کو میڈیا میں روشناس کرانے والے حامد میر ہی تھے ۔ہو سکتا ہے کہ اس نے خود یہ بات میر صاحب سے کی ہو ۔ بیگم کلثوم اکثر نماز پڑھتے ہوئے گڑ گڑا کر دعائیں مانگتیں اور اللہ سے معافی کی طلب گار رہتیں ۔

اکثر اوقات جب ان کا دل بھر آتا تو گویا ہوتیں کہ شاید دورانِ اقتدار ہم سے کوئی لغزش ہو گئی تھی جس کی اللہ نے یہ سزا دی ہے

آج اتنے سالوں بعد یہ واقعات صرف اس لئے یاد آئے کہ میاں صاحب ایک بار پھر بھنور میں پھنستے جا رہے ہیں ۔حالانکہ اس بار اپنے سابق تجربات کو دیکھتے ہوئے وہ بہت محتاط ہیں ، وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے طاقت کے حقیقی مرکز کو ان سے کوئی شکایت پیدا ہو ۔مگر پھر بھی پانامہ پیپرز ان کے لئے ایک ایسی دلدل بن چکے ہیں جس میں وہ دھنستے ہی جا رہے ہیں ۔

ابھی انھوں نے بمشکل مشرف کو جہاز پر چڑھایا تھاکہ ایک اور مسئلہ ان کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے ۔ اب وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایک خبر ہی تو ہے اور کوئی غیر قانونی کام بھی نہیں ۔لیکن چند ماہ پہلے ایگزیکٹ سکینڈل بھی ایک خبر ہی تھا۔بین الاقوامی قانون کے تحت آن لائن فرضی ڈگریاں جاری کرنا بھی کوئی غیر قانونی کام ہر گز نہ تھا ۔ لیکن جس طرح ایک بیرونی اخبار کی رپورٹ اور چند میڈیا مالکان کے دباؤ پر شعیب شیخ کو پابند سلاسل کیا گیا تھا ویسی ہی رپورٹ میاں صاحب کے اپنے خاندان کے بارے میں بھی آچکی ہے ۔ بین الاقوامی قانون کے تحت جس طرح آف شور کمپنیاں بنانا جرم نہیں وہی معاملہ آن لائن ڈگریوں کا ہے ۔مگر شعیب شیخ کو پھنسوا دیا گیا ۔کچھ باا ثر میڈیا مالکان نے جو مہم شعیب شیخ کے خلاف چلائی ویسی ہی خود میاں نواز شریف کے خلاف چل رہی ہے ۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔خدا نہ کرے کہ حالات 12 اکتوبر 1999 کے مقام پر آجائیں اور بیگم کلثوم سجدے میں جا کر استغفار کر رہی ہوں اور انھیں معافی کے لئے فیصل آباد کی بجائے کراچی جانا پڑے ۔ خدا خیر کرے ۔

بشکریہ
تجزیات آن لائن

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے