این اے 245 اور پی ایس 115 کے ضمنی انتخابات میں ایم کیوایم اپنی روایتی برتری دکھانے میں تو کامیاب ہوگئی لیکن انھی روایات کے مطابق ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ اور پولنگ اسٹیشنز پرعوام کی اکثریت دکھانے میں بری طرح سے ناکام نظر آئی این اے 245 سے ایم کیوایم کے امیدوار کمال ملک نے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق 39597 ووٹ لئے جبکہ پی ایس 115 کے امیدوار فیصل رفیق نے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق 11747 ووٹ حاصل کئے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار عین موقع پر وفاداری تبدیل کرتے ہوئے ایم کیوایم کی آغوش میں جابیٹھے اِس کے علاوہ جماعتِ اسلامی نے پہلے ہی الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ 2013 ء کے عام انتخابات میں این اے 245 سے ایم کیوایم کے ریحان ہاشمی نے 115810 ووٹ حاصل کئے تھے پی ٹی آئی کے امیدوار محمد ریاض حیدر 54751 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر جبکہ جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی نے 22376 ووٹ حاصل کئے تھے۔یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جماعتِ اسلامی نے اپنے مضبوط ترین حلقے سے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا اسی طرح پی ایس 115 سے 2013 ء کے عام انتخابات میں ایم کیوایم کے امیدوار ارشد وہرہ نے 55804 ووٹ حاصل کرکے پہلے نمبر پر پی ٹی آئی کے امیدوار 18652 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر اور جماعت اسلامی کے امیدوار 3937 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر تھے۔
ایم کیوایم کے موجودہ ووٹ کا تناسب ماضی کے ووٹ سے کافی کم ہے۔ ووٹ کے لئے عوام کا واضح طور پر باہر نہ نکلنا ایم کیوایم کے لئے کراچی کے عوام کی جانب سے خاموش پیغام ہے۔ کچھ حلقو ں کی جانب سے یہ کہنا کہ ایم کیوایم اور عوام میں دوری کا سبب ایم کیوایم کے قائد کی زبان بندی اسکے خلاف جاری آپریشن اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مسلسل کیجانے والی سازشیں ہیں کسی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن درحقیقت پچھلے آٹھ سالوں میں ایم کیوایم کی جوکارکردگی رہی ہے انتخابات میں کامیابی کا مرحلہ اُس کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ مشرف دور میں ملنے والے اختیارات زرداری حکومت میں جس پُرخلوص انداز سے واپس کئے گئے اُس کے بعد سے ہم سمجھتے ہیں ایم کیوایم کے خاتمے کے لئے کسی آپریشن کی ضرورت ہے اور نہ کسی کمال اینڈ کمپنی کی۔۔۔
عوام آج بھی حیران ہیں سندھ میں آباد تین کروڑ سے زائد اردو بولنے والوں پر مشتمل عوامی طاقت رکھنے والی واحد نمائندہ جماعت نے کیونکر وڈیروں جاگیر داروں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے مشرف دور میں ملنے والے اختیارات اتنی آسانی سے واپس کردئیے ہمارے نزدیک ایم کیوایم آج جس تنزلی کا شکار ہے اُس کی سب سے بری وجہ 2010 ء میں مشرف کے بلدیاتی نظام کے خاتمے پر چپ سادھے رہنا ہے۔ اگر اُس وقت حقیقی معنی میں عوامی ترجمانی کرتے ہوئے اِس کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی جاتی اور کسی طور اِس نظام کا خاتمہ نہ ہونے دیا جاتاجس طرح آج اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے اختیارات مانگنے کی باتیں کی جارہی ہیں اُس وقت عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا لئے جاتے تو آج یقینا ایم کیوایم نہ صرف سندھ کے شہری علاقون کی نمائندہ جماعت ہوتی بلکہ اندرونِ سندھ سمیت پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی اپنا لوہا منواچکی ہوتی۔ لیکن افسوس ایم کیوایم کی جانب سے مسلسل ناقص پالیسیاں اپنائے جانانہ صرف عوام کی امیدوں جذباتوں کو بلڈوز کرنے کا سبب بنا بلکہ ایم کیوایم کی تنزلی کا باعث بھی ٹھہرا۔
ہم مسلسل اپنے کالموں کے ذریعے ایم کیوایم کی قیادت اور اسکے پالیسی سازوں کو اِس امر کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ہر تدبیر بے صوت ثابت ہوئی۔موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر این اے 245 اور پی ایس 115 کے ضمنی انتخابات نے یقینا ایم کیوایم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہوگا لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا ں چک گئیں کھیت۔ نومولود سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی 24 اپریل کو باغ جناح میں عوامی طاقت کا مظاہر دکھانے جارہی ہے اِس حوالے سے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرتے ہوئے اچانک کراچی کے عوام کے درمیان نظر آئے فلحال ان کے ساتھ زیادہ نہیں لیکن عوام کا ایک ہجوم ضرور تھا اور اگرعوام کا یہ ہجوم بڑھتے بڑھتے 24 اپریل کو باغِ جناح پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تو یقینا کراچی کی سیاسی تاریخ کئی زاویوں سے بدل جائے گی۔