اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان بارہ مہینوں پر مشتمل سال کی بھی ایک اہمیت ہے۔ قرآن کریم نے بارہ ماہ کے سال کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا ہے:
ترجمہ: یعنی یقینا (ایک سال کے) مہینوں کی تعداد بارہ‘ اﷲ کی کتا ب (لوح محفوظ) میں ہے (اور یہ اس وقت سے مقرر ہے) جب اﷲ نے آسمان و زمین کو بنایا۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ (۱)
نبی اکرمﷺ نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار (ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب) کی حرمت و عظمت بیان کرتے ہوئے حجتہ الوداع کے موقع پر یوم نحر کو اپنے ایک تاریخی خطاب میں ارشاد فرمایا تھا کہ:
’’زمانہ لوٹ کر اپنی جگہ واپس آگیا اور اب مہینوں کی ترتیب وہی ہوگئی ہے‘ جو اﷲ نے تخلیق ارض و سماء کے وقت مقرر کی تھی (۲)
رجب کی عظمت و رحمت کے سارے عرب قائل تھے۔ مگر اسلام نے اس ماہ مبارک کی فضیلت یعض تاریخی واقعات کی بناء پر اور بڑھا دی۔
لغت کی کتابوں میں رجب کے معنی ’’عظمت و بزرگی‘‘ کے بیان ہوئے ہیں اور ترجیب بمعنی تعظیم آیا ہے (۳)
زمانہ جاہلیت میں اس ماہ کی تعظیم کے پیش نظر اس میں جدال و قتال منع تھا۔ قبیلہ مضر کے لوگ بطور خاص اس ماہ کی تعظیم کرتے اور قتل و غارت گری کو اس ماہ میں انتہائی معیوب جانتے تھے۔ اس لئے لغت کی بعض کتابوں میں رجب کو رجب مضر بھی کہا گیا ہے (۴)
نبی اکرمﷺ نے بھی اپنے خطبہ یوم النحر حجتہ الوداع میں اسے رجب مضر ہی فرمایا (۵)
[pullquote]رجب میں قربانی[/pullquote]
رجب کے مہینے میں زمانہ جاہلیت میں قربانی کرنے کا رواج بھی تھا اور یہ قربانی عتیرہ اور رجبیہ کہلاتی تھی۔ اسلام میں اس قربانی کے بارے میں نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا۔ چنانچہ سنن ترمذی میں ایک روایت اس طرح ملتی ہے کہ حضرت ابو ذر بن لقیط بن عامر عقیلی کہتے ہیں میں نے دریافت کیا یارسول اﷲﷺ! ہم زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں قربانی کیا کرتے تھے‘ جسے ہم خود بھی کھاتے اور جو کوئی ہمارے پاس آتا اسے بھی کھلاتے تھے۔ حضور ﷺنے اس کے جواب میں فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں (۶)
زمانہ جاہلیت میں لوگ رجب کی قربانی بتوں کے تقرب کے لئے کرتے تھے‘ اس لئے حضورﷺ نے اس سے ایک موقع پر منع بھی فرمایا مگر اس ممانعت کا مقصد دراصل بتوں کے لئے ذبح کرنے سے منع کرنا تھا‘ نہ کہ مطلقا رجب میں ذبیحہ سے منع کرنا (۷)
اہل اسلام کے لئے ہر ماہ میں اﷲ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ذبح کرنے کی اجازت ہے۔ بعض علماء نے اسے مباح کہا ہے بلکہ علماء ابن سیرین تو رجب میں باقاعدگی سے ’’رجبی‘‘ کرتے تھے (۸) جس کی صورت یہ ہوتی کہ جانور ذبح کیا جاتا اور دعوت عام ہوتی۔ ملا علی قاری اور علامہ عینی نے رجب کی قربانی کو ممنوع قرار دیا ہے (۹)
[pullquote]رجب میں قتال[/pullquote]
قریش کے ہاں ماہ رجب میں قتال کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا‘ اس لئے جب غزوہ بدر سے قبل نبی اکرمﷺ نے حضرت عبداﷲ بن حجش اسدی رضی اﷲ عنہ کی قیادت میں ماہ رجب میں ایک سریہ کے لئے صحابہ کو روانہ فرمایا اور انہوں نے بطن نخلہ میں قریش کے ایک قافلہ کو پایا جو عراق کی طرف جارہا تھا تو اس پر حملہ کرنے میں انہیں تردد ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگر حملہ کرتے تو رجب کی تعظیم و حرمت کے پیش نظر یہ مناسب نہ تھا اور حملہ نہ کرتے تو اگلے ہی روز قافلہ حدود حرم میں داخل ہوجاتا پھر تو حملہ کرنا اور بھی نامناسب ہوتا۔ چنانچہ صحابہ نے کثرت رائے سے فیصلہ کرکے حملہ کردیا۔ مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ قافلہ کا سامان تو مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا لیکن کفار کو یہ شور مچانے کا موقع مل گیا کہ نبی اکرمﷺ نے حرمت والے مہینوں کی حرمت و وقار کا بھی خیال نہیں کیا۔ نبی اکرمﷺ کو علم ہوا تو آپ بھی صحابہ کے اس عمل سے ناخوش ہوئے (۱۰) مگر اﷲ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کی تسکین قلب اور صحابہ کی دلجوئی و عزت افزائی فرماتے ہوئے یہ آیات نازل فرمائیں۔
ترجمہ: وہ پوچھتے ہیں آپ سے کہ ماہ حرام میں جنگ کرنے کا کیا حکم ہے‘ آپ فرمایئے کہ لڑائی کرنا اس میں بڑا گناہ ہے‘ لیکن روک دینا اﷲ کی راہ سے اور کفر کرنا اس کے ساتھ اور (روک دینا) مسجد حرام سے اور نکال دینا اس میں بسنے والوں کو اس سے بڑے گناہ ہیں اﷲ کے نزدیک اور فتنہ و فساد قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشہر حرام اور رجب کی فضیلت کو اسلام نے خاص اہمیت دی ہے
[pullquote]رجب میں عمرہ[/pullquote]
ماہ رجب میں عمرہ کا رواج زمانہ جاہلیت میں پایا جاتا تھا اور پورا عرب ماہ رجب میں عمرہ کرنے کی کوشش کرتا۔ چنانچہ پورے جزیرہ عرب سے ماہ رجب میں وفود مکہ مکرمہ کا رخ کرتے تھے اور ان قافلوں کو راستے میں کسی قسم کی لوٹ مار یا قتل و غارت گرمی کا خوف نہ ہوتا جبکہ دیگر مہینوں (ماسوا اشہر حرام) میں یہ ضمانت نہیں ہوتی تھی۔ عربوںکے ہاں ایک رواج یہ بھی تھا کہ ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم میں کاروباری منڈیاں قائم کی جاتیں اور حرم کے اردگرد بڑے بڑے تجارتی میلے لگا کرتے۔ ان مہینوں میں عمرہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ عمرہ کے لئے رجب ہی کا مہینہ مقرر تھا۔ اور اشہر حج میں عمرہ کرنا عربوں کے ہاں افجر الفجور سمجھا جاتا (۱۲)
بعض مسلمانوں میں رجب کے مہینے میں عمرہ کو بہت افضل سمجھا جاتا ہے‘ حالانکہ عمرہ ادا کرنا سنت ہے اور یہ کسی بھی مہینے میں کیا جاسکتا ہے اور جب بھی کیا جائے گا اس کی فضیلت ایک سی ہوگی ماسوا ماہ رمضان کہ اس کے بارے میں ارشاد مصطفوی بڑا واضح ہے۔
’’رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے‘ یا میرے ساتھ حج کے برابر ہے‘‘ (۱۳)
[pullquote]ماہ رجب اور معراج شریف[/pullquote]
اگرچہ اس بات میں اختلاف ہے کہ واقعہ معراج کب اور کس ماہ میں پیش آیا۔ اور اس سلسلہ میں علماء سلف کے متعدد اقوال ہیں۔ کسی نے ربیع الاول‘ کسی نے ربیع الثانی اور کسی نے رمضان المبارک کا مہینہ قرار دیا ہے۔ تاہم اکابر علماء کی ایک جماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ رجب ہی کے مہینے میں پیش آیا ۔
واقعہ معراج کے حوالے سے ۲۷ شب رجب اہل اسلام کے ہاں عبادات کی راتوں میں ایک رات شمار کی جاتی ہے۔ اسی رات لوگ بکثرت نوافل ادا کرتے اور ذکرواذکار کرتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں علماء حرم کے منع کرنے کے باوجود حرم شریف عمرہ کرنے والوں سے کھچا کھچ بھر جاتا ہے۔ میرے قیام مکہ مکرمہ 1983-1980ء کے دوران ایک بار امام حرم نے ماہ رجب کے ایک جمعہ کے خطاب میں کہا کہ لوگ خواہ مخواہ 27 ویں شب رجب میں عمرہ کو افضل سمجھ کر حرم میں رش (بھیڑ بھاڑ) کردیتے ہیں حالانکہ اس رات میں عمرہ کی کوئی فضیلت نہیں۔ اگلے ہی روز صبح حرم میں بعد نماز عصر جناب علامہ محمد علوی مالکی نے درس دیتے ہوئے اس کی پرزور تردید کی اور کہا ’’لوگوں کو اس رات میں عمرہ کرنے سے یہ کہہ کر روکنا کہ اس رات کی کوئی فضیلت نہیں‘ بہت بڑی غلطی ہے‘ سوال یہ ہے کہ عبادات کی کثرت عنداﷲ پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ؟ اگر ناپسندیدہ ہو تو بے شک منع کیجئے لیکن اگر مطلوب ہو تو کرنے دیجئے کہ اس بہانے کچھ لوگ عبادت کے لئے وقت نکال لیں گے۔ نیز یہ کہ ہر وہ دن افضل ہے جس دن کی نسبت محبوب خداﷺ سے ہے اور ہر وہ رات افضل ہے جس کو کسی بھی طرح نبی اکرمﷺ سے نسبت ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ اس رات کی نہ کوئی فضیلت ہے نہ افضلیت کسی طور بھی مناسب نہیں‘‘
[pullquote]ماہ رجب میں پیش آنے والے چند اہم تاریخی واقعات[/pullquote]
تاریخ اسلام میں ماہ رجب میں متعدد تاریخی واقعات پیش آنے کا ذکر ہے ان میں سے ایک ہجرت حبشہ اولیٰ ہے‘ جب مسلمان اہل مکہ کی سختیاں برداشت کرنے سے عاجز آکر باذن رسول اﷲﷺ عازم حبشہ ہوئے۔ اس قافلہ میں باختلاف روایات 12 مرد اور 4 عورتیں تھیں‘ سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ قافلہ سالار مہاجرین تھے۔ یہ سن پانچ نبوی کا واقعہ ہے۔
٭ سریہ عبداﷲ بن حجش الاسدی اسی ماہ رجب میں ہجرت مدینہ سے کوئی 17 ماہ بعد پیش آیا جس کا ذکر ہم پہلے ہی کرچکے ہیں۔ یہ وہ سریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں‘ مثلا اسلامی تاریخ کا پہلا مال غنیمت‘ پہلا خمس‘ پہلا شہید اور پہلا قیدی اس سریہ نے پیش کیا۔
٭ 9 ہجری میں پیش آنے والا عظیم غزوہ‘ غزوہ تبوک بھی ماہ رجب ہی میں پیش آیا تھا جسے غزوہ ذات العسرہ کا نام دیا گیا۔ یہی وہ غزوہ ہے جس میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپناگھر بار خالی کرکے تن من دھن حضورﷺ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے تہائی لشکر کا سازوسامان اپنی گرہ سے پیش کرکے جنت کا پروانہ اور یہ سند حاصل کی۔
ترجمہ: (آج کے بعد عثمان کچھ بھی کریں انہیں کوئی نقصان نہ ہوگا) …
۱۵
٭ حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال 9 ہجری ماہ رجب میں ہوا اور جناب رسول اﷲﷺ نے ازخود اطلاع پاکر اپنے صحابہ کی معیت میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔
دمشق کی تاریخی فتح 14 ہجری سن 635ء عیسوی میں ماہ رجب ہی میں ہوئی۔ حضرت خالد بن الولید رضی اﷲ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ جو ربیع الثانی 14 ہجرت سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے‘ فتح یاب ہوئے اور اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی۔
٭ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 583ھ‘ 1187ء میں رجب ہی کے مہینے میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدہ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔
اس طرح ماہ رجب کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے جو اس کی مذہبی فضیلت (شہر حرام) ہونے کے علاوہ ہے۔
[pullquote]رجب اور رجال اﷲ[/pullquote]
اعلیٰ حضرت مجدد گولڑوی پیر سید مہر علی شاہ صاحب کے ملفوظات میں ابدال و اقطاب کی تعریف میں حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمتہ اﷲ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’رحبیون‘‘ کو بھی ابدال کہا جاتا ہے اور وہ تعداد میں چالیس ہوتے ہیں اور ان کے ’’رجبیون‘‘ کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماہ رجب میں اپنے اپنے مقام پر ہوتے ہیں اور سال کے باقی مہینوں میں گشت کرتے ہیں۔ ان پر رجب کے پورے مہینے میں کشف وارد ہوتا ہے جس کا اثر بعض پر پورا سال رہتا ہے (۱۶)
حضرت شیخ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری چشتی رحمتہ اﷲ علیہ کا وصال 6 رجب 633 میں ہوا جن کے خلفاء و مریدین نے ہندوستان میں اسلام کی نشوونما کے سلسلہ میں تاریخ ساز کردار ادا کیا اور ظلمت کدہ ہند میں حضرت شیخ بزرگ رحمتہ اﷲ علیہ کی روشن کردہ شمع اسلام کی بھرپور حفاظت کا فریضہ انجام دیا۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے تقریبا تمام مراکز میں رجب کے مہینے میں خواجہ بزرگ کی یاد منائی جاتی ہے۔
ان کے علاوہ کئی بزرگان دین کے ایام وصال رجب المرجب کے مہینے سے تعلق رکھتے ہیں (۱۷)
حواشی و حوالہ جات
1۔ القرآن‘ سورۃ التوبہ‘آیت 36
2۔ صحیح البخاری‘ کتاب التفسیر‘ باب705‘ حدیث1773
3۔ ابن منظور افریقی‘ لسان العرب‘ زیر مادہ ’’رجب‘‘
4۔ ایضا
5۔ بخاری و مسلم
6۔ سنن نسائی کتاب الاضحیتہ‘ حدیث 4556‘ نیز سنن ابی دائود‘ کتاب الاضحیہ
7۔ شرح صحیح مسلم‘ ج 3‘ ص 171‘ بحوالہ ملا علی قاری
8۔ علامہ بدر الدین عینی‘ عمدۃ القاری‘ ج 1ص 89‘ مطبوعہ مصر
9۔ ملا علی قاری‘ مرقات‘ ج 3‘ ص 315‘ مطبوعہ ملتان
10۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری‘ ضیاء النبی ج 3‘ ص 376
11۔ القرآن‘ البقرہ آیت 217
12۔ السید رزق الطویل‘ مقال فی مجلہ الحج‘ شمارہ 1/51‘ ص 31 ‘ مکہ مکرمہ 1995ء
13۔ صحیح مسلم‘ باب فضل العمرہ فی رمضان‘ باب 375‘ حدیث 2934
14۔ مستدرک حاکم‘ ج 3‘ص 102‘ نیز ترمذی ابواب المناقب‘فی مناقب عثمان
15۔ مفتی فیض احمد فیض‘ ملفوظات مہریہ‘ ص 56