پھول اور بچے دونوں ایک سے ہی ہوتے ہیں ، دونوں کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لئے دیکھ ریکھ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس طرح پودوں کو کھاد اور پانی دے کر پروان چڑھایا جاتا ہے بالکل اسی طرح بچے بھی پیار اور توجہ کے مستحق ہوتے ہیں ۔
بچپن کی بہت سی یادیں میرے اور آپ کے اذہان میں محفوظ ہیں ۔ لیکن کچھ ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جنہیں نہ ماں کا پیار ملا ہوتا ہے اور نہ ہی باپ کی شفقت اور گلی کوچوں میں ہی ان کا بچپن ختم ہونے لگتا ہے بلکہ اگر یوں کہیں کہ وہ اپنا بچین ہی نہیں دیکھ پاتے تو درست ہوگا کیونکہ بچپن ماں اور باپ کے لاڈ پیار سے ہی بچپن کہلاتا ہے ۔ خیر یہ ننھی منی سی جانیں حوادث زمانہ کا سامنا کرنے کے لئے تن تنہا رہ جاتی ہیں ۔
۱۲ اپریل کو دنیا بھر میں بے گھر بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے یعنی وہ سٹریٹ چلڈرن جو سڑکوں پر ہی سو جاتے ہیں ۔ اس دن کومنانےکا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ان بچوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ زندگی کی اس جنگ میں وہ اکیلے نہیں ہیں ۔ ۲۰۱۶ میں اس دن کا تھئیم بہت اہم رکھا گیا ہے جسے ’’ شناخت یا آڈینٹنٹی کا نام دیا گیا ہے کیونکہ بہت سے بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو لاوارث نہیں ہوتے تاہم نامساعد گھریلو حالات کی بنا پر گھر سے بھاگ جاتے ہیں ۔
اس تھیم کا مقصد یہ ہے کہ ان بچوں سے ان کا نام پتہ پوچھ کر انھیں ان کے گھر اور وارثین تک واپس پہنچا دیا جائے اس سلسلے میں دستاویزی ثبوت حاصل کیئے جائیں ۔ کیونکہ یہ بچے پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور انھیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے ۔ اب یہاں بتانے کی بات یہ بھی ہے کہ ۲۰۱۵ میں اس عالمی دن کے لئے اقوام متحدہ نے ایک اور تھئیم رکھا تھا کہ ان گلی کوچوں میں رہنے والے بچوں کے بارے میں معلومات دی جائیں اور ان کی بہتری کے لئے تجاویز پیش کی جائیں تاکہ ان کے لئے ایک اچھا اور محفوظ ماحول تشکیل دیا جائے ۔ دنیا بھر میں تقریبا بیس کروڑ بچے گلی کوچوں اور فٹ پاتھوں پر زنگی گذارنے پر مجبور ہیں اور پاکستان بھر میں ان کی تعداد کم ازکم تیس ہزار ہے ۔ شامی پناہ گزین بچوں کی تعداد گیارہ لاکھ ہے اور پاکستان میں ۱۶ لاکھ مہاجرین ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے ۔
ہم اپنے گھروں میں پودوں کی کتنی حفاظت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پودے ہمارے ماحول کی خوبصورتی کے ضامن ہیں ، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان سے ہمیں زندگی ملے گی تو پھر ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ یہ معصوم بچے بھی ہمارے اردگرد کی خوبصورتی ، رعنائی اور زندگی کا حسن ہیں اور یہ بے گھر بچے بھی اتنی ہی توجہ کے لائق ہیں جتنے ہمارے اپنے بچے بس آج یہی کہنا تھا ۔۔۔