متحدہ عرب امارات میں‌منفرد کیاہے؟

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست نے ایک لبرل اور جدید طرزِفکر کابیانیہ اپنا لیاہے لیکِن قوم کی غالب اکثریت اس کو اپنانے کے لیئے ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں۔اس سے دو سوالات جنم لیتے ہیں۔ایک؛ کیا یہ بیانیہ قوم کی فکری تربیت سے پہلے بہت جلدی میں اپنا لیا گیا؟ دو؛ کیا اسلام لبرل اور جدید طرزِ فکر کے خلاف ہے؟

بنیادی طور پر اس وقت پورا معاشرہ مخمصوں کا شکار ہے کہ آیا ہمیں ایک تھیوکریٹک سٹیٹ کی طرف بڑھنا ہے، ایک لبرل اور جدید ریاست کی طرف یاپھر ایک اسلامی فلاحی ریاست کی طرف ۔اس سوال کے جواب سے پہلے میں پاکستان کو درپیش ایک اولین مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اس وقت اس ملک کو سب خطرات سے زیادہ سنگین خطرہ جو لاحق ہے وہ ہے مردانِ کار کی عدم دستیابی۔ایسے مردان کار جو حالات کا رخ موڑ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو نظری اور فکری طور پر بالیدہ ہوں۔ جو آ ہنی عزم ، آ ہنی کردار سے مسلح ہوں اور حالات کے جبر کے آگے بند باندھ کر کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ ایسی اقوام جو پستی کی بے کراں حدوں کو چھو رہی تھیں اچانک اللہ رب العزت کو ان کے حال پر رحم آیا اور پھر ان میں چند ایک ایسے مردانِ کار وارد ہوےٗ کہ انہوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔وادیٰ سندھ کی تہذیب جتنی قدیم ہے ، مردانِ کار کی عدم دستیابی ، اس تہذیب کا اتنا ہی قدیم مسئلہ ہے۔

میری بات شاید چند لوگوں کو بری لگے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مردانِ کار کے حوالے سے یہ دھرتی سدا کی بانجھ ہے ،،ہاں قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے استثنی کے سوا۔ لیکن شاید ایک اور محمد علی جناح اور ایک اور محمد اقبال دیکھنے کے لیے نرگس کو اپنی بے نوری پر مزید ایک ہزار سال رونا پڑے۔ وادیٗ سندھ کی تہذیب کا بنیادی حوالہ اس کی اوسط درجہ صلاحیت ہے۔یہاں کے حکمران، یہاں کے مصنف، یہاں کے صحافی، یہاں کے دانشور ، یہاں کے سائنسدان ، یہاں کے تاجر اور تو اور یہاں کے چور، ڈاکو اور لٹیرے بھی آپ کو اوسط درجہ صلاحیت کے ہیں کہ دنیا کے مشہور ومعروف چوروں اور ڈاکووٗں میں بھی آپ کو یہاں کے چوروں اور ڈکیتوں کا بھی نام نہیں ملتا۔لیکن خدا ےٗ قدوس کی پاک ذات جب دان کرنے پے آتی ہے تو ابراہیم ؑ اپنی بوڑھی اور بانجھ بیوی کی طرف حیرت سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں یارب ایسے ہی؟ تو اللہ کریم فرماتے ہیں ایسے ہی ہوگا۔وادیٗ سندھ کی دھرتی اس وقت اتنی بانجھ اور بنجر ہے کہ آسمان سے ایک بوند پانی کواپنے لیے ایک نعمت سمجھتی ہے۔ مردانِ کار کی عدم دستیابی کے بحران کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی اور کرپشن کے معاملات کو جب ذرا لگام دینے کی کوشش کی تو ہر طرف سے داد وتحسین کاایک سیلاب امڈ آیا۔گو کہ یہ صرف ایک ہلکی سی ابتداء ہے اور اس کو نتیجہ خیز ہونے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔ 27مارچ کو لاہور میں پیش آنے والا اندوہناک سانحہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی بہت طویل ہو گی۔لیکن مردانِ کار کو ترسی ہوئی اس قوم کو جس سے بھی اچھائی کی ذرا سی امید بندھتی ہے اسی کو اپنا مسیحا مان لیتی ہے۔

پاکستان کا مستقبل ایک لبرل اور جدید طرزِ فکر میں ہے، ایران جیسی ایک تھیوکریٹک ریاست میں یا پھر ایک اسلامی فلاحی ریاست میں۔۔افسوس ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے اس وقت نہ کوئی اقبال میسر ہے، نہ مولانا مودودی اور نہ کوئی ڈاکٹر حمیداللہ جیساثقہ عالم۔ مذہبی طبقے کی قیادت اگر ٖفضل الرحمن، سراج الحق ، طاہرالقادری اور احمد لدھیانوی کے ہاتھ میں ہے توسیاست میں ہمارے پاس،عمران خان، نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے نابغے ہیں۔۔۔۔یعنی دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کی پاکستان اگر ایک ملک کی پیروی اختیار کرے تو شاید اس کے حالات میں کچھ بہتری آسکے۔
قارئین میں سے بہت سے لوگوں کو متحدہ عرب امارات جانے کا اتفاق ہوا ہوگا،ہماری اشرافیہ کے لیے جو نہ صرف ایک بہترین تفریح گاہ بلکہ ایک محفوظ ٹھکانے کا کام بھی دیتاہے۔ہمارے کمانڈو مشرف صاحب کے درد کی دوا بھی وہیں میسر ہوتی ہے۔ اس ملک میں جاکے ، وہاں گھوم پھر کے انسان کو احساس ہوتا ہے اور اس ملک کے فیصلہ سازوں کو بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے کہ کس طرح ان لوگون نے اس چھوٹے سے ملک کے اندر دنیا بھر کے افراد، اقوام ، مذاہب اور تہذیبوں کو سمو کے رکھ دیاہے۔ اس ملک کے حکمران جو نہ تو علم وحکمت میں کوئی کمال رکھتے تھے اور نہ ہی معدنی وسائل میں وہ باقی خلیجی ممالک کے ہم پلہ تھے اور زراعت کا تو سرے سے تصور ہی نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی اس ملک نے ایسے شاندار طریقے سے اپنے آپ کو لانچ کیا کہ اب متحدہ عرب عمارات ساری دنیا کے ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

متحدہ عرب امارات ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ کو ساری دنیا کے سارے ممالک کے افراد نظر آتے۔ لیکن اس ملک کی سب سے زیادہ خوبصورت چیز جو مجھے متاثر کرتی ہے کہ وہاں آپ ہر طرح کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگر آپ مذہبی میلانِ طبع رکھتے ہیں تو مذہب (اسلام)کے مطابق زندگی گزارنا اور اس پر عمل کرنا آپ کے لیے اتنا آسان ہے کہ آپ بڑی آسانی سے پنج وقتہ نمازی بن سکتے ہیں۔ اور اگر آپ لبرل زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی آپ پر کوئی پابندی نہیں۔ ہر ایک دو کلومیٹر کے بعدآپ کو نہایت شاندار اور آرام دہ مساجد بھی مل جائیں گی اور اگر آپ ایک خاص قسم کے مشروب سے لطف اندوز ہونا چاہیں اور کسی رقص گاہ میں جانا چاہیں تو ایسی چیزیں بھی بآسانی میسر ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے بازاروں میں آپ کو سر تا پا حجاب میں ملبوس خواتین بھی نظر ائیں گی ، جن کے لباس پر یورپ کی طرح آپ کو کوئی اعتراض کرتا ہوا نہیں ملے گا اور وہیں پر آپ کو انتہائی کم لباس میں ملبوس یورپیئن اور فلپائنی عورتیں بھی نظر آئیں گی اور کسی کا ایمان خطرے میں نہیں پڑے گا۔مذہب کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کا نظریہ بہت ہی پریکٹیکل ہے ۔ جگہ جگہ آپ کو انتہائی آرام دہ مساجد ملیں گی جہاں نماز ادا کرنا آپ کے لیے بہت خوشگوار ہوگا۔ اس سے بڑھ کر آپ اسلام کے کسی بھی مسلک یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں،آپ ایک ہی جگہ ، ایک ہی امام کے پیچھے ایک ہی وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ آپ ناف پہ ہاتھ باندھیں، سینے پہ یا پھر کھلے رکھیں ، کوئی آپ پر اعتراض نہیں کرے گا۔ متحدہ عرب امارات کی تمام ریاستوں میں اذان صرف ایک ہی جگہ پر دی جاتی ہے اور وہیں سے اذان ریاست کے تمام حصوں میں ٹرانسسٹر کے ذریعے پھیلتی ہے۔نماز سے پہلے یا نماز کے بعد کوئی ایسی اضافی چیز نہیں ہو گی کہ آپ کو مسجد والوں کے مسلک کا پتہ چلے۔ تمام مساجد میں صرف نماز ہی ہوگی ۔ اور اگر آپ کی جماعت چھوٹ گئی ہے تو فکر کی کوئی بات نہیں ، آپ بعد میں آنے والے نمازیوں کے ساتھ مل کر نئی جماعت کھڑی کرسکتے ہیں اور کوئی آپ سے تعرض نہیں کرے گا۔کوئی آپ کو داڑھی نہ ہونے کی وجہ سے امامت کے لائق نہ ہونے کا طعنہ نہیں دے گا اور نہ ہی کوئی آپ کی پتلون پر اعتراض کرے گا۔متحدہ عرب امارات کے عرب زیادہ تر فرض نماز ہی پڑھتے ہیں لیکن باقاعدگی سے پڑھتے ہیں اور جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں،ان کی دیکھا دیکھی وہاں موجود تمام عالم کے مسلمان بھی باقاعدگی سے فرض نمازیں پڑھتے ہیں۔اس نمائندے نے وہاں کچھ ایسے پاکستانی بھی دیکھے جنہوں نے بتایا کہ وہ اپنے ملک میں بالکل نماز نہیں پڑھتے تھے کیونکہ وہاں اپنے مسلک کی مسجد تلاش کرنا اور پھر لمبی عبادات کرنا خاصا دشوار کا م تھا۔ لیکن یہاں ہر مسجد میں نماز ادا کی جا سکتی ہے اس لیے اب ہم پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں ۔تمام مساجد سرکار کے کنٹرول میں ہیں اور جمعے کا خطبہ سرکاری ہوتا ہے اس لیے کسی قسم کی شر انگیزی کی صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔ متحدہ عرب امارات میں ایک بہت اچھی بات یہ ہے کہ خواتین کے لیے نماز کی ادائیگی کا انتظام بھی ہر مسجد میں کیا جاتاہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اسلام ایک لبرل اور ترقی پسند مذہب ہے اور اس میں عورتوں کے حقوق پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں۔ مزید یہ کہ اسلام میں باجماعت نماز لوگوں کو معاشرے میں گھلنے ملنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکنا ان کے اس معاشرتی کردار کی نفی ہے جو اسلام نے انہیں دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی اصل طاقت اس کا امن و امان ہے اور وہاں کے ادارے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیتے۔

متحدہ عرب امارات کی ترقی سے ہم یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ آپ بھلے اوسط،یا اس سے بھی کم صلاحیت کے مالک ہوں، اگر آپ کے ملک میں امن امان ہے اور قانون کی عملداری ہے تو ساری دنیا سے لائق ترین لوگ آکے آپ کے ملک کو سنوار اور سجا دیں گے ۔معاشرے میں امن امان ہی ترقی کی کنجی ہے۔اگر آپ کے ملک میں امن امان ہو گا تو لبرل، تھیوکریٹک،سیکولر یہ ساری بحثیں خود بخود دم توڑ جائیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے