ًمہاراج ! ہم آپ کےتابعدار ہیں

شام کے سفر میں حضرت عمرؓ گاؤں میں رکے ایک بیوہ سے پوچھا بی بی آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت عمر بن خطاب کہاں ہیں بیوہ بے زاری سے بولی مجھے کیا معلوم سنا ہے کہ شام سے چل پڑا ہے۔ آپؓ نے کہا کہ امیرالمومنین سے اتنی بے رخی اور بے خبری۔ بڑھیا بولی امیرالمومنین کو ہماری خبر نہیں تو ہمیں ان کے حالات سے کیا غرض آپؓ نے اپنے ساتھیوں کو اس کی خبر گیری اور ضروریات پوری کرنے کی ہدایت کی بڑھیا بولی کاش عمرؓ کی جگہ تم امیرالمومنین ہوتے اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ فرمایا کرتے خلافت کا مفہوم مجھے شام کی بڑھیا نے سمجھایا کہ جو سربراہ حکومت اپنے شہریوں کے حالات سے بے خبر ہو اسے حکمرانی کا حق حاصل نہیں وقت شہادت آیا تو حضرت عمرؓ کے ساتھیوں نے اصرار کیا کہ اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو جانشین نامزد کر دیں مگر آپ نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر خلافت نعمت تھی تو عمرؓ اور اس کے خاندان نے وافر مقدار میں حصہ پا لیا اگر آزمائش ہے تو میں اپنی اولاد کو اس میں کیوں ڈالوں مگر یہ گزرے وقتوں کے قصے ہیں۔

حضرت عمر کا تاریخی جملہ کہ جو سربراہ مملکت اپنے شہریوں کی حالات سے بے خبر ہو۔ ان کی جان و مال کی حفاظت نہ کر سکتا ہو اسے حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں۔ مملکت خداداد پاکستان میں دور دور تک حضرت عمر کے قول کے مطابق حق حکمرانی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خان کے بعد جو بھی پاکستان کو حکمران ملا الا ما شاء اللہ اس نے ہر دن کو آخری دن سمجھ کر پاکستانیوں کے گلے کاٹے۔ زیادہ دور کی بات نہیں زرداری صاحب نے ملک کی سب سے مقدس اور محترم طاقت سے مل کر این آر او کے ذریعے کرپشن کو جاہز کروانے کے لیے عدالتوں سے گواہی مانگے تو پھر رات کی تاریکی میں ڈاکے مارنے والے دن کو بھی کیا باز آئیں گے۔ اوپر سے ستم ظریفی کہ ان ڈاکوؤں کو تحفظ دینے کیلئے پورے کا پورا بریگیڈ جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہا ہے ۔ کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ حکمرانوں نے دن دیہاڑے پاکستانی قوم کو لوٹ لیا کہ انہیں کانوں کان خبر نہیں ہو۔ پانامہ لیکس نے معصوم اور من موہنی صورت رکھنے والوں کے چہرے سے نقات اتارا تو اندر سے بھیانک اور مکروہ چہرے برآمد ہوئے۔ کون کسی کو سمجھائے یہ عقل و دانش کی آخری سیڑھی پر نظر آتے ہیں۔ سب کے اپنے اپنے تحفظات ہیں اپنے اپنے حواریوں کے مفادات کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ ’’کھان پین نوں خوشیا تے دھون بھناں نوں جما‘‘ عوام کے پیسوں پر ڈاکہ زنی حکمران کریں سزا عوام بھگتے۔ کسی کی جان و مال محفوظ نہیں اور دعوے کرتے پھر رہے ہیں کہ دیانت داری سے ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔

وزیراعظم میاں نواز شریف کی لندن یاترا سے پہلے ان کی صاحبزادی کا ایک ٹویٹ آیا کہ پچھلی حکومت اس ملک میں کوئی کوالٹی ہسپتال نہیں بنا سکی وزیراعظم علاج کے غرض سے لندن جا رہے ہیں۔ مان لیا کہ پچھلی حکومت کرپٹ تھی، آپ بھی کسی سے کم نہیں جبکہ کرپشن کی رینکنگ ہی ایک درجہ ان سے آگے ہیں۔ شریف فیملی کی مرکز میں 3سال اورپنجاب میں پچھلے 10سال سے اقتدار پر قابض ہے۔ آپ کی حکومت نے کونسا تیر مارا ہے سوائے کرپشن کے۔ آپ کی حکومت چاہتی تو پنجاب کے اندر 10 سالوں میں جدید ترین ہسپتال بنا سکی تھی۔ ہسپتال نہ بن سکا الٹاآپ کے ٹکڑوں پر پلنے والے کاسہ لیس، چاپلوس قسم کے لوگوں نے شوکت خانم ہسپتال پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دی۔ حد کر دی آپ کے کاسہ لیسوں نے ایک ایسے ادارے کو بدنام کرنا شروع کر دیا جہاں پر غریبوں کا علاج ہوتا ہے

شوکت خانم کا شمار دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف اپنی تقریروں میں اکثر یہ جملہ بولا کرتے ہیں کہ ہم آنے والی نسلوں کو بہترپاکستان دے کر جانا چاہتے ہیں۔ کونسا بہتر پاکستان ، قرضوں میں ڈوبا ہوا پاکستان، جب سے ان کی حکومت آئی ہے عوام کے حالات پتلے ہوئے ہیں جبکہ شریف خاندان کے اثاثے بڑھے ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے، ملک سے اندھیروں کا خاتمہ کرنا اور دیانتدار ی سے ملک کی خدمت کرنا یہ ن لیگ حکومت کے نعرے ہیں پچھلی حکومت کے نہیں۔ بجلی کے قبضے بھی منصوبے بنائے گئے وہ تو صرف کاغذوں میں بنائے گئے اگر کوئی زمین بنا بھی تو اس میں اتنی کرپشن کی گئی کہ کرپشن کا لفظ بھی شرما گیا۔ کیا پتہ تھا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے دعوے دار خود بڑے ڈاکو ثابت ہونگے۔ عوام کو طفل تسلیاں دی جاتی رہیں خود ’’اندر و اندر کام پانے رہے‘‘

وزیراعظم پاکستان نے لندن ایئرپورٹ پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنے والے موقع کی تاڑ میں رہتے ہیں کہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے لیکن دنیا جانتی ہے کہ ہم دگنی رفتار سے کام کررہے ہیں ، اپوزیشن کا کام ہی حکومت کی کرپشن بے نقاب کرنا اور اچھے کاموں کی تحسین کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام جاندار اپوزیشن کر تی ہے مفاہمتی اپوزیشن نہیں جو پیپلزپارٹی کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دور اقتدار میں ’’رج‘‘ کے کرپشن کی ہے وہ کیا شور مچائے گی۔ انہیں پتہ ہے کہ اگر ہم بولے تو ہم بھی 9نمبر خانے میں لنگ جائیں گے ۔ اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کی پارٹی تھوڑا ’’رولا‘‘ کر کے چپ ہو جائے گی۔ ان کی ٹانگیں پولیو زدہ ہیں وہ اٹھ کھڑی نہیں ہو سکتی۔

رہی بات عوام کی تو سواے اہل سیاست! پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے کرپشن میں رنگے عمائدین! اے کاسہ لیسوں ،چاپلوسوں کی فوج ظفر موج ! اے مشیروں کے گروہ خاص اور اے محترم و محبوب وزیراعظم!

ہم تیار ہیں آپ جو چاہیں کریں، پاکستانی عوام خاموشی اور سعادت مندی سے قطاروں میں کھڑی ہو جائے گی، روزگار کی قلت ہو یا تن ڈھانپنے کیلئے کپڑے کی۔ پینے کیلئے صاف پانی کی کمی ہو یا بھوک مٹانے کیلئے روٹی کی آپ پاکستانی قوم کو صابروشاکر پائیں گے آپ اپنی جیب بھریں اور آنے والی نسلوں کیلئے دل کھول کر مال جمع کریں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ پھر آپ بے شک کہیں کے ہم پاکستان کی دیانتداری سے خدمت کر رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے