انقلاب کی وضاحت

آج کی تحریر میری سابقہ تحریروں سے مختلف ہے- میں نے آج ایک مشکل اور تکنیکی موضوع پہ قلم اٹھانے کی جسارت کی ہے- خواہش ہے کہ میں اس موضوع سے انصاف کر سکوں-
میرا آج کا موضوع “انقلاب” ہے- تحریر کا جواز انقلاب کے لئے پراپیگنڈہ کرنا ہے، ساتھ ہی میں کہوں گا کہ آپ انقلابی بنیں۔ بنیادی مقصد انقلاب کی وضاحت کرنا ہے۔

انسانوں کے آپسی تعلق کو معاشرہ کہتے ہیں- تاریخی مادیت بتاتی ہے کہ یہ تعلق (معاشرہ) اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے تاکہ انسان اپنا مستقبل اور اپنی آنے والی نسل کا مستقبل بہتر بنا سکیں- انسانوں کے آپسی تعلق کا تعین، مستقبل کی بقا کیلیے ہونے والی جدوجہد کا تعین اور جدوجہد کے طریق کا تعین معاشی نظام ہی کرتا ہے- میرے فہم کے مطابق معاشی نظام کی ہیت کا تعین عہد کے زرائع پیداوار کرتے ہیں- اب تک تاریخ نے جتنے بھی نظام دیکھے ہیں انہوں نے حاکموں کے مفادات کا تحفظ کیا- لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کوئی نظام ہمیشہ باقی نہیں رہا، نظام آیا، نافذ ہوا، ایک خاص مدت پوری کی، پھر خود ہی ترقی کی راہ میں بیڑیاں بن گیا- پھر وہی نظام اپنی موت کا سامان خود تیار کرتا ہے، اور کسی متبادل کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی حاکم نظام نے رضاکارانہ طور پہ اقتدار نہیں چھوڑا- لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ “زندگی اور موت کے سوال میں منطق کبھی بھی طاقت کی جگہ نہیں لے سکی۔” یہی تاریخ کی المناک حقیقت ہے-

سماج جب ایک نظام کی متروکیت سے نپٹنے کا عہد کرتے ہوئے کسی دوسرے نظام کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو اس عمل کو انقلاب کہتے ہیں- انقلاب کا اولین قدم بغاوت ہوتی ہے- طاقت ایک طبقے سے چھین کر دوسرے طبقے کو دے دی جاتی ہے- طاقت کے حصول کیلیے دو طبقات کی جنگ کو بغاوت کہا جاتا ہے- بغاوت تین شرائط پہ ایک کامیاب انقلاب کا روپ دھار لیتی ہے:

1- بغاوت کی قیادت ترقی پسند افراد کریں-
2- عوام کی اکثریت اس بغاوت میں متحرک ہو-
3- ایک نیا نظام قائم ہو جائے-

ہر نظام کی متروکیت ترقی پسند افراد کی افزائش کرتی ہے- یہ ترقی پسند افراد ایک خودکار طریقے سے باہم ہو جاتے ہیں- ان افراد کی جتھہ بندی کی بنیاد انکے ترقی پسند خیالات ہوتے ہیں- یہی خیالات ان افراد میں اخلاص کو پروان چڑھاتے ہیں- عوام کی اکثریت کا ابھار کوئی عام چیز نہیں ہے- یہ عوامی مداخلت بغاوت کو رخ مہیا کرتی ہے- یہ ابھار بلاوجہ پیدا نہیں ہوتا- سماجی بندشیں اتنی گہری اور ناقابل برداشت ہو جاتی ہیں کہ سماج تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے- یہ ایک سنجیدہ اور حساس لمحہ ہوتا ہے- اگر قیادت کرنے والا ترقی پسند طبقہ عوامی بغاوت کو سنبھال نہ پائے تو ردانقلاب کا آغاز ہوتا ہے اور بغاوت ناکام ہو جاتی ہے- اور اگر قیادت بغاوت کو سنبھالتے ہوئے نیا نظام قائم کردے تو بغاوت کامیاب ٹہرتی ہے، انقلاب ظہور پذیر ہو جاتا ہے-

شعوری مداخلت کا آغاز ایک انقلابی جماعت کی ترتیب سے شروع ہوتا ہے- جب ترقی پسند طبقہ یہ ادراک حاصل کرلے کہ وقت آگیا ہے، انقلابی جماعت کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے- انقلابی جماعت ترقی پسندوں کو جوڑتی ہے، حالات اور خیالات کو آپس میں ہم آہنگ کرتی ہے- پسےہوئے محکوم طبقے کا دل جیت لیتی ہے- ایک ایسی جماعت کی عدم دستیابی بغاوت کو ردانقلاب میں بدل دیتی ہے- ٹراٹسکی کے الفاظ کے مطابق “بغاوت اور انقلاب کے معروضی اور موضوعی عناصر کے مابین دو طرفہ رشتہ ہے۔”

سوشلسٹ انقلاب کے داعیوں کو ایک بات سمجھنی ہو گی کہ سوشلسٹ انقلاب سرحدوں میں مقید نہیں کیا جا سکتا ورنہ روس کے انقلاب کا حشر آپ کے دامن پہ داغ کے طور پہ موجود ہے، کیونکہ انقلاب سرحدوں میں مقید ہو کر جوزف سٹالن کے ہاتھوں ردانقلاب میں بدل گیا- سوشلزم عالگیریت کے سوا صفر ہے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے