تعلیم حکمرانوں کی ترجیح کیوں نہیں ؟؟

تعلیم ایک ایسا ہمہ گیر عمل ہے جس پر کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی کا انحصار ہے۔مشہور چینی کہاوت ہے کہ “اگر کسی کا منصوبہ ایک سال کا ہے تو کاشت کاری کرے، اگر دس سالہ ہے تو درخت لگاو۔ اور اگر منصوبہ سو سالہ ہے تو افراد سازی کرے۔ افراد سازی کا یہ کام درس گاہوں اور تعلیمی اداروں میں ہی ممکن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جن قوموں نے تعلیم اور تعلیمی پر وقت، توجہ اور سرمایہ لگایا وہ دُنیا میں اپنا مقام بنا گئے، اور جن ہستیاں وہی ہیں جن کا تعلق علم کے شعبے سے ہے۔ مغرب کی تعمیر و ترقی اعلی تعلیم، بہترین افرادی قوت اور مختلف شبعہ ہائے زندگی میں اعلی کارکردگی کے حامل افراد کی ہی مرہون منت ہے۔ تعلیم یافتہ افراد، معاشرہ اور قوم ملک کی معیشت کی بقاء، تعمیرو ترقی میں اہم سنگ میل رکھتے ہیں اور قومی سلامتی بھی مستحکم و مضبوط ہوتی ہے۔ قوموں میں تہذیبی قدروں کے ارتقاءکا اندازہ ہوتا ہے۔

پاکستان میں شعبہ تعلیم کے حوالے سے حقائق انتہائی تلخ اور تُرش ہیں۔ وطنِ عزیز حوالے سے بات کی جائے توقلب و اذہان متزلزل ہونے لگتے ہیں۔دورِ حاضر میں ایک طرف جب دنیا تعلیمی لحاظ سے عروج پر ہے پاکستان تعلیم کے میدان میں اپنی شناخت کھورہا ہے۔سرکاری نظامِ تعلیم اور نصاب دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انسان سازی کی یہ صنعت اپنی پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے بانجھ پن کا شکار ہے۔ یہ تعلیمی ڈھانچہ مُلکی و مِلی تقاضوں اور معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اِس سے نکلنے والے بیشتر افرا د فکری و عملی طور پر کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی مرعوبیت کا شکار ہوتے ہیں۔ اور علمی بالغ نظری کے فقدان کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کے جذبہ مطلوبہ سے عاری بھی ہوتے ہیں۔اس ساری صورتحال کی اصل وجہ یہی ہے کہ نصاب ہائے تعلیم کی تیاری ہماری قومی و معاشرتی نفسیات اور ضرورتوں کے مطابق نہیں ہوئی۔ اپنے ہی گھر میں موجود کسی بھی بچے کا سرکاری نصاب اٹھا لیں۔آپ خود سے پوچھیں گے کہ یہ نصاب ایک بیدار مغز پاکستانی شہری پیدا کرنے کے لئے کافی ہے؟ یہ نصاب علمیت بڑھاتا ہے یا احساسِ کمتری و برتری پروان چڑھاتا ہے ؟منطقی سوالات و مباحث اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا رٹو طوطے پیدا کرتا ہے؟ ۔ تعلیمی سال شروع ہونے کے ساتھ نصابی کتب بر وقت شائع نہ ہونے کی بدولت طلباءو طالبات کوبے حد پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر یقین مانیئے پرائیویٹ بپلشرز کی کتب سے بازار سجے ہیں۔اِن اسکولوں میں نصابی کُتب کو سمجھ کر پڑھنے کی بجائے ”رٹا” کو فروغ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلباءمیں سیکھنے کا رجحان کم ہو جاتا ہے۔بورڈ کے امتحانات کا تجربہ بھی ڈرامے بازی سے کم نہیں ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت ہی لاغر ہے، جس میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومتیں اب تک ایک قابلِ فخر، بے خطا، راست اور درست تعلیمی نظام بنانے میں ناکام رہی ہےں۔ اکثر سرکاری اسکولوں میں ڈنڈوں کے سائے تلے تعلیم دی جاتی ہے جس کے باعث بچوں کی ایک بڑی تعداد سکول جانے سے صرف اس لئے گھبراتی ہے کہ اب ان میں مزید تشدد برداشت
کرنے کی سکت نہیں رہی، نتیجہ آفریںکہ ہر سال تقریباً53000 طلباءو طالبات تعلیم سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔

قدرتی آفات یعنی سیلاب بارشیں۔ امن و امان کی کشیدہ صورتحال اور نجی تعلیمی اداروں اور حکومت کے درمیا ن آئے دِن کی محاز آرائی۔ اِن عوامل نے بھی ہمیں معاشی اور علمی میدان میں کاری ضرب لگائی ہیں۔ مذکورہ عوامل کے منفی اثرات سب سے پہلے تعلیمی اداروں پر ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ بلاوجہ چھٹیوں کے باعث بچوں ( طلباءو طالبات) کا تعلیمی سال اور نصاب حد درجہ متاثر ہوتا ہے۔پے درپے چھٹیوں کی وجہ سے مقررہ نصاب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا جس کو مکمل کرنے کی جستجو میں اساتذہ بچوں ( طلباءو طالبات) پربے پناہ بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ نتیجاًوہ خوش وخضو کے ساتھ کرنے کے بجائے صرف لگا لپٹا میں ہی مکمل کرنےکی فکر میں رہتے ہیں۔جب زکر آتا ہے امتحانات کا تو دِل خون کے آنسو روتا ہے۔ ” امتحانات، نقل ، ملتوی” اِن الفاظ کا چولی دامن کا ساتھ قائم ہوچکا ہے۔ شعبہ تعلیم کے اعلیٰ اور تجربہ کار انتظامیہ کے لیے امتحانات کو ملتوی کرنا معمول کا عمل بن پا چکا ہے۔ اس بات سے قطعی نظر کہ مستقبل کے یہ معمار دن کے اُجالوں اور رات کے اندھیروں میں مطلوبہ پرچے کی تیاری کرتے ہیں اور اگلے دن امتحانات ملتوی کردیے جاتے ہیں۔ یہ ایک المیہ تو ہے ہی مگر ہماری انتظامیہ کی نا اہلی، ناقابلیت اور پالیسی مرتب کرنے والوں کی عقل اور سوچ کو سلام کہ ملتوی ہونے والے پرچے کو آخر میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ جبکہ ملتوی شدہ پرچے کا انعقاد فوری ہونا چا ہے تاکہ طالب علموں کی محنت ضائع نہ ہو۔ سوال پوچھا جاتا ہے کہ "امتحانات شروع ہوگئے” فوراً دوسرا سوال ذہین میں آتا ہے” نقل ہورہی ہے” ۔ نقل کا رجحان تیزی سے تقویت پا رہا ہے۔ امتحانات میں سَرے عام نقل محکمہ تعلیم کے ملازمین اور قانون کے محافظوںکی سرپرستی میں اپنے عروج پر ہوتی ہے ۔

زِکر خاص ہے نجی تعلیمی اداروں کا جنہوں نے تعلیم کو بیش قیمت بنا دیا ہے۔ کتابوں میں پڑھا اور بڑوں سے سُنا ہے کہ ” علم بڑی دولت ہے” ۔ شعبہ تعلیم پر حکومتی عدم توجہ، نا اہلیت اور قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے نجی تعلیمی ادارے اب کی انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ” علم بڑی دولت ہے” یہ کہاوت پوری طرح ثابت ہوچکی ہے۔ یہ کہنا معیوب نہیں ہوگا کہ نجی ادارے نوٹ چھاپنے کے کارخانے بن چکے ہیں۔ ماہانہ فیس کے علاوہ دیگر مد میں بھی فیس وصول کی جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کُتب، یونیفارم کی دستیابی میں بھی منافع حاصل کیا جار ہا ہے۔ بیش بہا آمدنی کے باوجود بڑی تعداد میں یہ نجی تعلیمی ادارے رہاشی اور کمرشل عمارتوں، بنگلوز میں قائم ہیں ۔ جہاں صبح اسکول کالج اور شام میں کوچنگ سینٹر قائم ہیں۔ یہ ادارے کسی بھی طور پر تعلیم و تربیت دینے کے معیار پر نہیں۔ لائبریری، لیبارٹری اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے میدان جیسی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ۔ باوجود اِس کے عرصہ دراز سے ایسے تعلیم ادارے پوری طرح قا ئم و دائم ہیں اور دِن دوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ شعبہ تعلیم کے حکامِ بالا با خبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر ہیں۔ لائبریری کی عدم فراہمی کے باعث طلباءو طالبات میں مطالعہ کا رجحان تیزی سے دم توڑ رہا ہے تو ساتھ ہی رٹا سسٹم کو بھی زیادہ ترویج مل رہی ہے۔ اِسی طرح میدان نہ ہونے کی وجہ سے مارننگ اسمبلی اور غیر نصابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نئی نسل اسمبلی اور پی ٹی کے نام سے انجان تو ہو چکے ہیں توساتھ ہی فضا بھی قومی ترانہ کی گونج سے انجان۔ اگر یہی زبوںکار رہے تو وطنِ عزیز میں قابل طلباءاور بہترین کھلاڑ ی یوں کا فقدان ہوگا۔ حکومت کی عدم توجہ کے باعث سرکاری شعبہ تعلیم تیزی سے زوال پزیر اور نجی
ادارے بام عروج کو چھو رہے ہیں۔

نجی اداروں کے متعلق اہم بات کا زکر کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں۔ جہاں ہر سال نصاب میں شامل کُتب تبدیل کر دی جاتی ہیں۔ سب کچھ کس لیے کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ بات سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ نجی اداروں میں ایسے مناظر اب عام ہیں جو کبھی ہم ہسپتال و کلینک میں دیکھا کرتے تھے، جہاں ادویات کی کمپنی کے نمائندے مارکیٹنگ کے لیے رُخ کیا کرتے ہیں۔ لیکن آج ہمارے تعلیمی اداروں کی صورتحال بھی اِس سے مختلف نہیں۔ تعلیمی سال کے اختتام سے قبل ہی مختلف پبلشرز کے نمائندے کُتب کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے مختلف اسکولوں کا رُخ کرتے ہیں۔ مالی فوائد پبلشرز اور تعلیمی اداروں کے لیے مگر مالی نقصان طالبِ علم اور والدین کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ عجب صورتحال ہے مختلف مضامین کی کُتب بھی مختلف پبلشرز کی لیکن کیمبرج، آکسفورڈ سسٹم کا نام ۔ ان میں سے اکثر تعلیمی اداروں کو صرف اپنی فیس سے مطلب ہوتا ہے۔ یہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ اِن نجی تعلیمی اداروں کا نصاب ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہے۔ نصاب میں شامل آٹھویں اور نویں جماعت کی کسی بھی مضامین کی کتب دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طلباءکسی خاص مضمون میں پی ایچ ڈی کررہا ہے۔

تلخ حقائق اور ٹھوس حقیقتوں سے آگاہی کے باوجود ہم نے شعبہ تعلیم کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی۔ نصف صدی بیت گئی لیکن آج بھی ہم اپنے آپ کوترقی کے بجائے تنزلی کی جانب بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ ناخواندگی اور جاگیردار نہ نظام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ایسے بھیانک عناصر ہیں جو ہماری بھوک و افلاس کو مٹانے کی تمناکو ایک سراب بنا رہے ہیں۔ ناخواندگی کی کثرت غربت، افلاس اور عدم تحمل فروغ دے رہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ اُردو اور انگریزی ردّی کے بھاﺅں میں بھی فرق ہے ۔ پاکستان میں خالص جمہوری نظام آج تک قائم نہیں ہوسکا، جس کی باعث ملک میں شعبہ تعلیم پرورش نہیں پاسکا ۔ذہین، شعور، لاشعور، تفکر اور تدبر، جنوں، یقیں، عزم اور مقصدیت سے مزین افراد، معاشرہ اور قوم وجود میں آسکی اور نہ ہی ملک کی سماجی و اقتصادی ساکھ بھی نشوو نما نہ پاسکی۔ وطنِ عزیزکے موجودہ حا لات کے خاص الخاص داخلی و قدرتی عوامل اور ٹھوس صداقتیں جو ہمارے رہنماءو عوامی نمائندوںکی فکر کے زاویے اور پالیسی ساز اداروں کے سربراہوں کی سوچ کے دھاروں پر بے شمار سوالیہ نشان ثبت کرتا ہے۔ مستند ِ اقتدار پر رونق افروزعوامی رہنماﺅں نے بھی اپنی نا اہلی، ناقابلیت کو فروغ دیا۔ حکمرانِ وقت نے تعلیمی اہمیت کو صرف سیاسی تقاریر اور بیانات کی حد تک جانا مگر عملی کام آج تک نہیں ہوسکا۔ یہ ہے نیند کا وہ لبادہ جس کے گھیرے میں ہم لاتعلقی بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔ کیا یہ غفلت ہے؟ یا ہمارے باطن میں "بزدلی” کا خلا پیدا ہوگیاہے؟

آج پاکستان کا شمار نچلے درجے کے اُن سات ممالک میں ہوتا ہے جوملک کی مجموعی پیداوار جی ڈی پی کاصرف ۷.۱ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان میں کُل اسکولوں کی تعداد ۰۲۴،۸۵۲ہے جس میں سرکاری تعلیمی۷۷۵،۰۸۱ ( ۰۷ %) اور نجی ۳۴، ۸۷۷ ( ۰۳%)ہیں ۔ لیکن حیرت ہے کہ مگر جگہ جگہ صرف نجی تعلیمی ادارے ہی نظر آتے ہیں، جبکہ ۰۰۰۰۳ سرکاری تعلیمی اداروں کا وجود صرف کاغذوں اور فائلوں میں ہی ملتا ہے۔ صوبوں میں بشمول سرکاری، نجی اور مدارس جانے والے بچوں کی شرح تناسب پنجاب میں ۹.۳۸۔ سندھ۶.۰۷۔ خیبر پختونخواہ۴.۵۸۔ بلوچستان۵.۶۷۔ گلگت بلتستان۴.۷۷ اور فاٹا میں۷.۴۷فیصد ہے ۔ سرکار کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ دیہات میں ۸۴ اور شہر میں ۸۲ فیصداسکول ایسے ہیں جہاں بیت الخلا ءکی سہولت موجود نہیںہے۔ دیہات میں ۷۴ اور شہر میں۰۲ فیصداسکول ایسے ہیں جہاں پینے کے پانی کی سہولت موجود نہیںہے۔ دیہات میں ۷۴ اور شہر میں۰۵ فیصداسکول ایسے ہیں جہاں بجلی میسر نہیں ہیں۔ دیہات میں ۶۱اور شہر میں ۴ فیصدگورنمٹ اسکول بغیر عمارت کے قائم ہیں۔ وطنِ عزیز کے شبعہ تعلیم کی مخدوش صورتحال کا یہ مختصر سا جائزہ ہے۔

اللہ پاک کا کرم و شکر ہے کہ حکمرانوں کی عدم توجہ، مخدوش حالات اور وسائل کی کمی کے باوجو د بھی ملک میں ایسے لوگ ہیں جو تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں ملک کانام روشن کر رہے ہیں۔ اِ ن میں نمایاں نام محسن علی، قیانوس خان، علی معین نوازش، عرفا کریم رندھاوا ( مرحومہ )،بروج فاطمہ، بابر اقبال، عروبہ راﺅ، شافعِ تھوبانی، محب اقبال۔ سرکاری اسکول اوربیکن، آکسفورڈ اور کیمبرج کے یہ جگماتے ستارے جو نامساعد حالات کے سامنے سیسہ پالائی دیوار ثابت ہوئے اور آج دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت ہیں۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر اشفاق احمد، ڈاکٹر عبداللہ صادق، ڈاکٹر پرویز ہودبائے، ڈاکٹر ثمر مبارک مند،ڈاکٹر پروفیسر شاہد ایچ بخاری، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹرعطاالرحمن۔ جاوید لغاری ، گلوکار شہزاد رائے اورملالہ یوسف زئی یہ ہیں وہ نامورشخصیات جوملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور سائنس و ٹیکنالوجی کےمیدان میں آج بھی سرگرم عمل ہے۔

اِن معروضات کے پیش نظر ہمارے ارباب اقتدار کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ نصاب کی اساسی کتب اور بنیادی مضامین کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا نصاب تیار کیا جائے تو جو مُلکی و مِلی تقاضوں اور ہماری معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ ہو۔ محض اساتذہ کی بھرتی سے مزید غیر فعال اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ماضی میں بھی ایسے نمائشی کام بہت ہوتے رہے ہیں، نئی روشنی اسکول، پڑھا لکھا پنجاب اور دانش اسکول جیسے منصوبے بھی خاطر خواہ بہتری لانے کا سبب نہیں بن سکے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ہر سال لاکھوں بچوں کی علمی ، تجزیاتی و نفسیاتی شکلیں مسخ ہورہی ہیں۔ اگر ہم اِس سماجی و اقتصادی دور میںامتیازی حیثیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ مقام پانے کے لیے اِن چار بنیادی ستونوں پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، جدت طرازی اور ایماندار، دور اندیش سرپرستوں کے زِیر سایہ بہترین انتظامی امور و نگہداشت۔حکومت کو اپنی اچھی ترجیحات سے نتائج کے حصول کو اپنا اولین ہدف بنانا ہوگا بصورت دیگر تعلیم کے شعبے کو زوال سے نکالنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ بچوں کے حالات سے متعلق ایک سرکردہ ادارے سپارک کے مطابق اس وقت پاکستان ناخواندہ بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یعنی ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے سکول سے باہر ہیں۔ اگر شعبہ تعلیم پر توجہ نہ دی گئی اور مناسب ، پائیدار اصلاحات نہ کی گئی تو۰۵۰۲ تک پاکستان میں ناخواندہ افراد کی تعداد۴کروڑ تک پہنچ جائیگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے