دسواں شریک

مصر کی ایک چھوٹی سی بستی "تفہنا اشراف مرکز میت غمر”میں 9 افراد رہتے تھے جو ایک زرعی یونیورسٹی کے فاضلین تھے ،یہ سب فقر و افلاس کا شکار ہوئے جب کہ یہ اپنی عملی زندگی کوشروع کرنا چاہتے ہیں ،انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنےتجربات کی بنا پرپولٹری کا کاروبار شروع کریں گے،اور وہ اس حوالے سے اپنے ساتھ دسویں شریک کو تلاش کرنے لگے،بہرحال ان میں سے ہر ایک نے 200 مصری پونڈجمع کئے ،اگرچہ یہ بہت چھوٹی رقم تھی لیکن ان کی نظرمیں بہت بڑی تھی ،انہوں نے اس کاروبار کے لیے اپنی بیویوں کے زیورات اور زمینیں بیچ ڈالیں اورقرض بھی لیا تاکہ مطلوبہ رقم 200مصری پونڈ پوری کر سکیں،وہ برابر دسویں شریک کی تلاش میں رہے،مگرکوشش بے فائدہ رہی۔ان میں سے ایک شریک انجینئر صلاح عطیہ نے یہ کہہ کر دسویں شریک کی تلاش کے قصہ ہی کوختم کر دیا کہ میں نے دسواں شریک ڈھونڈ لیا ہے۔سب نےحیرت سے سوال کیا کہ وہ کون ہے؟صلاح عطیہ نے جواب میں کہا کہ وہ اللہ ہے۔یہ ہمارے ساتھ دسویں حصے میں شریک ہو گااور اس کی طرف سے ہمیں حمایت،مدد اور ضرر رساں اشیاء اور نقصان سے حفاظت حاصل ہو گی،سب ساتھیوں نے اس بات پر اتفاق کر لیا۔

کمپنی کے حوالے کا معاہدہ لکھا گیا جس میں ہرشریک کے لیے دسوں حصہ لکھا گیااور دسویں شریک یعنی اللہ تعالی کے لیے بھی مدد ونصرت اور ضرر ونقصان سے بچاؤ اور نفع کے حصول کے بدلے نفع کا دسواں حصہ مقرر کیا گیاتھا ،معاہدے کی دستاویز رئیل اسٹیٹ کے ذریعےمکمل کی گئی،جیسا کہ وہ چاہتا تھے۔کاروبار شروع ہونے کے بعد جب پہلا سیشن ختم ہوا تووہ پیداوار اور نفع کے اعتبار سے بہت اچھا ثابت ہوا،یہ ان کی توقعات کے بلکل برعکس تھا۔کاروبار کے دوسرا سیشن میں سب شرکاء نے دسویں شریک یعنی اللہ کے لیے 20فیصد تک حصہ بڑھا دیا،اسی طرح ہر دفعہ اس حصہ میں اضافہ کرتے رہےیہاں تک کہ حصہ 50فیصد ہو گیا.

صلاح عطیہ اور اس کے ساتھی اس فائدے کو مختلف رفاعی اور اصلاحی امور میں خرچ کرنے لگے ،سب سے پہلے انہوں نے تعلیم کو ترجیح دی،اورابتدائی مکاتب دینیہ للاطفال کا قیام اور اس کے بعد چھوٹی بچیوں کے مکاتب وکو بھی تعمیر کیا گیا. پرائمری سطح تک کے بنین اور بنات کے لیے تعلیمی اداروں کا قیام کیا گیا۔بنین اور بنات کے لیےمیٹرک سطخ تک تعلیمی اداروں کا قیام کرنے کے بعد حاصل ہونے والےنفع کے لیے بیت المال قائم کیا گیا ،اور کالج کے قیام کے لیے سوچ وفکر شروع کردی گئی،کالج کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ اس گاؤں میں ریلوے اسٹیشن کا نہ ہو نا تھا ،کالج تو شہروں میں قائم کئے جاتے ہیں ۔انہوں نے اپنی ذاتی کوششوں کی وجہ سے اپنے گاؤں میں ریلوے اسٹیشن کے قیام کے ساتھ ساتھ کالج کا قیام بھی عمل میں لایا،اور پہلی دفعہ مصر کی تاریخ میں ایک چھوٹے سے گاؤںمیں کالج بنایا گیا،پھر یہ تعداد دو،تین اور چار تک پہنچ گئی ،اور پھر 600 طالبات کےلیے 1000 طلبہ کے لیے الگ الگ ہاسٹل بنائے گئے،کالج کے ہر طالب علم کے لیے ریل میں مفت سفر کے لیے کارڈ جاری کیے گے تاکہ وہ کالج میں آسانی سے پہنچ سکے۔بیت المال کے قیام کی وجہ سے اس گاؤں میں کوئی آدمی فقیر نہ رہا۔ پھر اس تجربہ کو قریب کی بستیوں تک پھیلایا گیا،انجینئر صلاح عطیہ ہر بستی میں جاکر سب سے پہلے مسلمانوں کے نفع کےلیے بیت المال قائم کرتا ،پھر اس کے ذریعے غرباء اور مساکین کی مدد کی جاتی،بے روزگار نوجوانوں کو مختلف پروجیکٹس میں روزگار مہیا کرکے فقر وفاقہ سے نجات دی جاتی۔

قریبی ممالک میں سبزیوں کو برآمد کیا جانے لگااور جس دن حاصل شدہ پیداوار کو جمع کیا جاتا ،اور پیکنگ کا عمل مکمل کیا جاتا تو پورے ملک میں تقسیم کیا جاتا جو تحفہ ہوتا قوم کے بڑوں کی طرف سے چھوٹوں کےلیے ہوتا تھا۔یکم رمضان سے ہر بستی میں اجتماعی افطار کا انتظام کیا جاتا ،کھانا پکا کر پلیٹوں میں ڈال دیا جاتا تھا اور پھراس بستی والوں کے ساتھ ساتھ مسافر بھی وہاں سے کھاتے ۔یتیم بچیوں کے جہیز کا انتظام کرکے ان کی شادیاں کروائی گئیں۔

آخر میں کمپنی کے سب شرکاءکا اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ تمام کا تما م منافع فی سبیل للہ ہو گا،اور انجینئر شریک کاروبار سے اللہ کے حضور ایک ملازم کی حیثیت اختیار کرکے ماہانہ تنخواہ لینے لگے لیکن وہ اپنے رب سے اس شرط کے ساتھ کہ وہ ہی ان کو فقر میں مبتلا کر سکتا ہے اور وہ ہی ان کو محتاج کر سکتا ہے۔ اور یہ مختصر سی کارگزاری ہے ان انجینئروں کی کارکردگی کی ،جو اپنی آمدنی میں انفاق فی سبیل اللہ کو ترجیح دیتےہیں،ارب پتی صلاح عطیہ مصری کی کمپنی یقیناً ان کا شریک وہ اللہ ہے ،جو قوت و طاقت والا ہے ،وہ غنی ومغنی ہے،اور جب صلاح عطیہ وفات پائے تو ہم ان کا جنازہ دیکھا تو کامیاب شخص کا جنازہ نظر آیا،وہ جنازہ جنرل حمید گلؒ اور ڈاکٹر شیر علی شاہ ؒاللہ ان پر رحم فرمائے کے جنازے کی طرح تھا ،”اللہ تعالیٰ رحم فرمائے السید صلاح عطیہ پر ۔

نبی کریم ﷺ کی حدیث شریف اسی مناسبت سے ہے،حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ،ایک شخص کسی میدان میں تھا کہ اس نے سے بادلوں سے آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی پلاؤ ،وہ بادل وہ سے چل پڑا،وہ پہاڑوں پر برسا ،پانی چٹانوں سے ہوتا ہوا ایک نالے میں پہنچا اور وہ نالہ پانی سے بھر کیا ،یہ شخص اس پانی کے پیچھے چل پڑا،دیکھا ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا ہے ،اور پانی کو بیلچے سے پھیر رہا ہے،اس شخص نے اس آدمی سے کہا ،اے اللہ کے بندے!تیرا نام کیا ہے؟اس نے وہی نام لیا جو اس نے بادلوں میں سے سناتھا۔باغ کے مالک نے اس پوچھنے والے سے سوال کیا کہ اآپ نے میرا نام کیوں پوچھا ہے؟اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے اس بادل سے جس کا یہ پانی ہے ایک آواز سنی ،جو کہہ رہا تھا کہ فلاں کے باغ کو پانی لگاؤ اور وہ آپ کا نام تھا۔اآپ اس باغ میں کیا کرتے ہو؟باغ کے مالک نے جواب دیا ،کہ جب آپ نے یہ بات کہہ ہی دی ہے تو سنئے ، میں اپنے باغ سے حاصل ہونے والی پیداوار کو ایک تہائی اللہ کے راستہ میں صدقہ کرتا ہوں،ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کے لیے ہوتا ہے اور ایک ثلث زمیں میں دوبارہ بو دیتا ہوں۔(صحیح مسلم )یہ حدیث شریف میں نے ماہرین اقتصادیات میں سے ایک ماہر کے سامنے بیان کی تو اس نے مجھے کہا کہ حدیث شریف اسلامی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

کسی زمانے میں ہم چار ساتھی ویلفئیر اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف عمل تھے ہمارے وسائل آمدنی محدود ہوئے تو میں نے ان سے کہا کہ ہمارے وسائل آمدنی کم ہوتے جا رہے ہیں ، اس لیے ہمیں آزادانہ تجارت کرنی چاہیےاور ہم نے عزم کیا کہ ہم مذکورہ بالا حدیث شریف کے قاعدے کے مطابق تجارت کریں گے،بلکہ ہم نصف نفع اپنے دینی ودعوتی امور کے لیے وقف رکھیں گے اور نصف آپس میں تقسیم کریں گے،سب نے اس پر اتفاق کیا،میں نے ہر ایک سے 800 ڈالر لیے ،یہ کل رقم 3200ڈالر ہوئے،میں نے ان سے کہا کہ تم اس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز ہو، اب فیصلہ کرو کہ ہمیں کیا کاروبار کرنا چاہیے،ان میں سے ایک نے رائے دی کہ ہمیں ایسے پروجیکٹس کرنے چاہیے جو زیادہ منافع بخش ہوں،ہم نے اس رائے کو لیا ،ہم محنت و کوشش کرتے رہے،ہم نے ایک اہم منصوبے کو شروع کرنا کا ارادہ کیا جس کو دو شخص اچھے طریقے سے کرسکتے تھے ، جوامریکہ سے پاکستان میں مسلم ڈاکٹرز کو لانے کے بعدہسپتال کا قیام کرنا تھا۔اور اس کی اجازت سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اسلام آباد کے قلب میں انتہائی واجبی قیمت پر دینے کے ساتھ دی۔ہم ان ڈاکٹرصاحب کے پاس گئے اور ہم نے ان کو اس اسلامی و ملکی مفاد عامہ کے بارے میں متوجہ کیا،انہوں نے اس حوالے سے ہمیں خوش آمدید کہا اوروہیں ہم نے ان سےایگریمنٹ کر لیا،اور ہم کئی ملین ڈالر کے اس منصوبے میں کامیاب ہوئے۔ اگر آدمی تھوڑی مقدار آہستہ آہستہ جمع کرتا رہے ،قبل اس کے کہ راس المال ختم ہو اس کاروبار کا منافع شروع ہو جاتا ہے۔ہمارے فنڈز اور ہمارے منصوبوں کے فنڈز کی بدولت” شفا ہسپتال "کی صورت میں اہل اسلام آباد کے لیے بہت بڑی اور جدید علاج گاہ وجود میں آئی اور ہم اللہ تعالیٰ کی ذات سےامید کرتے ہیں کہ ہم اس کی اجرت کی طرح اجر بھی حاصل کریں۔اسی طرح اپنے دوسرے اور تیسرے منصوبے کامیاب ہوئے ،اور وہ پاکستان میں اسلامی بنک کی بنیاد ہے ، لیکن جب حالات تبدیل ہوئے،نیتیں مختلف ہوئیں اور اختلافات ظاہر ہونے لگے ،توبرکتیں اٹھ گئی اور کامیابیاں روٹھ گئیں ،جیسا کہ ہمارے ایک استاد کا قول ہے، نیت خالص اور عمل نیک ہو تو کامیابی ضرور ملتی ہےجس طرح ترکی میں موصیاد کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ،اسی طرح ارب پتی صلاح عطیہ کا عمل بھی قا بل تقلید ہے۔قابل توجہ امریہ ہے کہ حضرت صادق المصدوق ﷺ کا قول تجربات سے بالا تر ہوتا ہے،وہ اٹل حقیقت ہوتا ہے جس پر عمل کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

[pullquote]یہ مضمون آئی بی سی اردو کے لیے تنویراحمداعوان نے ترجمعہ کیا [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے