چلتےچلتےچٹکی

جب انتظامیہ خود چوہے مارنے میں دلچسپی نہیں لے گی تو ایسا ہی ہو گا۔ پہلے فی چوہا مارنے کا 25 روپے انعام رکھا گیا۔ پھر 250 تک کی نوید سنائی گئی۔ مگر شاید وزیر خزانہ خیبر پی کے کو بجٹ خسارے کے خوف نے گھیر لیا اور یہ انعامی رقم ہی ختم کر دی گئی۔ اب جہاں لوگ پورا بنک لوٹ لیتے ہیں وہاں چوہے کو مارنے کیلئے 25 روپے انعام دینے کو اسراف شمار کرنا کہاں کا انصاف ہے۔
جیسے ہی انعامی رقم غائب ہوئی لوگوں میں چوہے مارنے کا جذبہ بھی سرد پڑ گیا دوسری طرف چوہا بستیوں میں جشن منایا گیا کہ ’’جان بچی سو لاکھوں پائے‘‘ چنانچہ اب ایک بار پھر پشاور میں چوہا مستی عروج پر ہے اور ان کی انسانی آبادیوں پر یلغار بھی۔ اب ایک اور بچی کو چوہے نے کاٹ لیا۔ دیکھنا ہے‘ خیبر پی کے وزیراعلیٰ اس چوہا گردی کیخلاف جوابی کارروائی کیا کرتے ہیں تاکہ عوام الناس کو اس چوہا گردی سے نجات دلائی جا سکے۔ ویسے حیرت کی بات ہے یہ خیبر پی کے بہادر جیالے باسی ہتھیار جن کا زیور ہے یہ چوہے ان سے بھی نہیں ڈرتے۔ خٹک حکومت 3 برسوں سے پشاور جیسے شہر میں اگر صفائی کی صورتحال بہتر نہیں بنا سکی تو پھر باقی شہروں میں کیا خاک تبدیلی لا سکی ہو گی۔ فی الحال وزیراعلیٰ خیبر پی کے کو سب کام کاج چھوڑ کر چوہوں کے خلاف دھرنا دینا چاہئے پشاور کی سڑکوں‘ گلیوں اور بازاروں میں‘ باقی کام بعد میں بھی ہو سکتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
پولیس اور سیاسی شخصیات چھوٹو کی زندہ گرفتاری کی مخالف ہیں۔
کیونکہ ان میں اکثر اس گینگ کی سرپرستی فرماتے تھے۔ انکی مہربانیوں اور قدر دانیوں کی بدولت یہ چھوٹو اتنے بڑے بڑے کام دکھانے لگا کہ حکومت پنجاب اس کے شر سے پناہ مانگنے لگی۔ علاقے کے عوام تو پہلے ہی چھوٹو کے کارناموں کے آگے گھٹنے ٹیک چکے تھے۔ امرا اپنے بچوں کو گھر والوں اور کاروباری اداروں کو چھوٹو کی پہنچ سے دور رکھنے کیلئے نقل مکانی کر چکے تھے۔ پورا علاقہ
دن نوں راج فرنگی دا
رات نوں راج ملنگی دا
کی مثال بنا ملنگی کی بجائے چھوٹو کے نام کا اندراج کرارہا تھا۔ حکومت پنجاب میں بھی بڑے بڑے نامی گرامی سورما موجود ہیں مگر یہ سب مونچھیں لٹکائے‘ گردن جھکائے نظر آنے لگے۔ آئی جی پولیس رینجرز کے ساتھ ملکر خود چھوٹو کو زیر دام لانے آئے مگر وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ حکومت کو بالآخر اس در پر آنا پڑا جہاں سے امرت دھارا ملتا ہے۔ اب کالے بوٹ اور خاکی وردی والے جن کے ذکر پر بہت سے لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ ایکشن کیلئے آئے تو ان پولیس افسران‘ سیاستدانوں اور وڈیروں کو مروڑ اٹھنے لگے جو چھوٹو کے سر پر دست شفقت رکھتے تھے۔ کیونکہ اگر چھوٹو زندہ پکڑا گیا تو ان سب کو جان بچانا مشکل ہو جائیگا اس لئے انکی کوشش ہے کہ مردہ چھوٹو ہاتھ لگے۔ مگر آرمی والے بھی چھوٹو کو زندہ پکڑنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں تاکہ اسکے سہولت کاروں اور مربیوں کا بھی مربہ بنایا جا سکے۔
٭…٭…٭…٭
مصطفی کمال ہوا میں تیر چلاتے ہیں: فاروق ستار
مگر کمال کی بات یہ ہے کہ انکے چلائے ہوئے تمام تیر آج کل نشانے پر جا لگتے ہیں۔ اگر وہ نو آموز ہوتے تو انکے تیر بھلا نشانے پر کیسے آکر لگتے۔ صاف معلوم ہوتا ہے الطاف بھائی کی تربیت میں رہ کر انہوں نے جہاں بہت کچھ سیکھا اس میں تیر اندازی بھی شامل ہو گی۔
سچ تو یہ ہے کہ آج کل مصطفی کمال کو وہ اوج کمال حاصل ہے کہ نشانے خود انکے ہوا میں چلائے تیروں کے سامنے آجاتے ہیں۔ انکے مخالفین دم بخود ہیں‘ ان کی زبانیں اور ہاتھ شل ہو رہے ہیں کہ کس طرح جوابی وار کریں۔ انکے ہر حملے کے جواب میں شاخ لندن پر بسیرا کرنیوالا کوئی نہ کوئی پرندہ اڑ کر پاک سرزمین کی شاخ پر چہچہانے لگتا ہے۔ اگر ہجرت کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا تو شاخ لندن خالی ہو جائیگی اور تمام خوش نوا طیور مصطفی کمال کے چمن میں نغمہ سنج نظر آئینگے۔
یہی پریشانی اس وقت فاروق ستار کو بھی ہے کیونکہ وہ اس وقت الطاف بھائی کا سایہ ہیں جسطرح بادشاہ کو ظل الٰہی کہتے ہیں اسی طرح فاروق بھائی بھی الطاف بھائی کا پر تو ہیں۔ اگر صحن چمن اجڑ گیا تو پکڑ فاروق بھائی کی ہی ہونی ہے اس لئے وہ کوشش میں ہیں کہ کسی طرح ان سیاسی ہجرت کرنے والوں کو روکیں تاکہ الطاف بھائی کے نعرے کراچی میں لگتے رہیں اور ایم کیو ایم کا کاروبار چلتا رہے۔
٭…٭…٭…٭
لندن میں جمائمہ کے گھر کے باہر مسلم لیگیوں کا مظاہرہ۔
عمران خان نے رائے ونڈ کے گھیراؤ کا اعلان کر رکھا تھا۔ جس کا غصہ ظاہر ہے مسلم لیگ (ن) والوں کو تو ہونا ہی تھا مگر اس کے اظہار کا جو طریقہ لندن میں انہوں نے نکالا وہ نہایت بھونڈا تھا۔ اگر گھیراؤ یا مظاہرہ کرنا ہی تھا عمران خان کے خلاف تو بنی گالہ یا زمان پارک پر کرتے جہاں عمران خان رہتا ہے۔ یہ لندن میں جمائمہ کے گھر کے باہر مظاہرہ کس لئے۔ یہ تو گھر بھی انکی والدہ کا ہے۔ جہاں وہ بھی اپنے دو بیٹوں کے ساتھ رہتی ہے۔ عمران لندن آیا تو ظاہر ہے یہاں اپنے بیٹوں سے بھی ملنے آیا ہو گا۔ یہاں سیاست بازی دکھانے کا کیا فائدہ۔
اب پورے لندن اور دنیا بھر میں پاکستانیوں کی سبکی ہوئی کہ یہ کیسے احمق لوگ ہیں مسئلہ پاکستانی سیاست کا ہے اور مظاہرہ لندن میں ہو رہا ہے۔ وہ کیا سوچتے ہوں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو گھر کی جنگ دوسرے ممالک میں لڑتے ہیں۔ اس طرح تو ہمارے اپنے وطن کی بدنامی ہوتی ہے۔ کیا یہ بات ہمارے جذباتی سیاسی کارکنوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ لیڈروں سے محبت اپنی جگہ سب سے زیادہ فوقیت وطن سے محبت کو دینی چاہئے۔ مگر ہم ہیں کہ خود بیرون ملک اپنے وطن کیلئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ کیا یہی حب الوطنی ہے۔

بشکریہ : نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے