میاں صاحب! اب ‘یس سر’ کہنا ہو گا

فوج کے سربراہ راحیل شریف نے کرپشن کے خاتمے اور احتساب کو ضروری قرار دینے کا جو بیان دیا ہے اس سے ملکی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا.مارشل لا کے خواب دیکھنے والے تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں نے اسے فوج کی جانب سے حکومت کو واضح "پیغام” قرار دیا.جبکہ حکمران جماعت کے کچھ حلقوں میں اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا.بظاہر راحیل شریف کا یہ بیان ایک ادارے کے سربراہ کا بیان ہے جس کے جواندہشت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دشمن کے ساتھ نبرد آزما ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس جنگ کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.لیکن دوسری جانب ملک میں جاری سیاسی بحران کے تناظر میں یہ بیان ایک خاص اہمیت کا حامل بھی ہے.

پانامہ لیکس کے دباو کے زیر اثر حکومت کیلئے سیاسی محاذ پر راحیل شریف کا یہ بیان ہر چند بھی حوصلہ افزا نہیں ہے. راحیل شریف اکثر زو معنی انداز میں اپنے ادارے کے جذبات کی ترجمانی کرنے کے ماہر ہیں.اور غالبا یہ بیان حکمران جماعت کیلیے ایک اشارہ بھی ہے کہ معاملات کو سلجھایا جائے. اپنی اخلاقی برتری کے باعث راحیل شریف اس وقت ملک کے ڈی فیکٹو سربراہ ہیں اور سیاسی بساط سمیٹنے میں انہیں ہرگز بھی کسی بھی قسم کی دقت کا سامنا نہیں ہو سکتا. لیکن راحیل شریف ایک سمجھدار جرنیل ہیں انہوں نے دھرنے کے دنوں میں بھی حکومت کو گھر بھیجنے کے بجائے قانون اور آئین کا ساتھ دیتے ہوئے حکومت کی خاموش حمایت کی تھی.

اس پانامہ لیکس کے بحران میں بھی راحیل شریف نے ابھی تک حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی.البتہ راحیل شریف کے ادارے میں اور بھی چار ستارہ جرنیلز اور کور کمانڈرز ہیں جو موجودہ حکومت کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ان کے ادارے میں جو آفیسرز کے جذبات ہیں راحیل شریف کو انہیں بھی مقدم رکھنا ہوتا ہے اور ان کا یہ تازہ بیان غالبا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے.چونکہ حکمران جماعت اس وقت ایک بوکھلاہٹ کا شکار ہے اسی لیئے وزیر اطلاعات کو ہنگامی پریس کانفرنس کر کے اپنی حکومت کا کرپشن کے خلاف موقف واضح کرنا پڑا تا کہ سول اور ملٹری قیادت ایک ہی پیج پر نظر آئیں. حکمران جماعت کی یہ کوشش ایسے حالات میں انتہائی بھونڈی بھی لگی اور غیر مناسب بھی. حکمران جماعت کوکم سے کم اپنا فوکس اس وقت پانامہ لیکس کے معاملے کو حل کرنے کی جانب رکھنا چائیے. گذشتہ تجزیے میں راقم نے عرض کر دیا تھا کہ پانامہ لیکس سے پیدا شدہ بحران کے بعد نواز شریف کے پاس دو ہی راستے ہیں کہ یا تو دوبارہ عوام سے رجوع کرنے کیلئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے یا پھر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کی مانند ایسٹیبلیشمنٹ کی ڈکٹیشن لیتے ہوئے مدت حکمرانی یس باس کہہ کر پوری کی جائے. نواز شریف نے دوسرے راستے کا انتخاب مناسب سمجھا تو اب یس سر کہنے کی عادت بھی ڈالنی ہو گی.

گو کسی بھی مثالی جمہوری ملک میں ایک مسلح ادارے کا سربراہ سیاسی بحران کے موقع پر ایسا بیان ہرگز نہیں دیتا لیکن اس کے لیئے جمہوری کلچر اور سیاسی قیادت کا خود شفاف ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے.بلاشبہ اگر سیاستدانوں کا دامن صاف ہوتا تو راحیل شریف کو یہ بیان دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی یا پھر سیاستدان فورا اوکاڑہ ملٹری فارمز پر انکوائری کمیشن بٹھا کر عسکری قیادت کو اس میں طلب کر سکتے تھے.لیکن یہ سب وہی کر سکتا ہے جس نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں.منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کے زریعے کالا دھن سفید کرنے کے بعد امور مملکت کو ونسٹن چرچل یا محمد علی جناح کی طرح چلانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا. سول حکومتیں اختیارات اپنے حق میں کرنا چاہتیں تو مفادات کی سیاست کے بجائے عوام کی فلاح کی سیاست کا راستہ اختیار کرتیں.

کم سے کم اب سیاستدانوں کے پاس اس بات کی کوئی اخلاقی دلیل نہیں ہے کہ انہیں کمزور کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں اور جمہوریت کو اس ملک میں پنپنے ہی نہیں دیا جاتا ہے. کیونکہ جب بھی سیاستدانوں کو موقع ملا انہوں نے گڈ گورننس کے نعرے تو لگائے لیکن ہمیشہ اپنی جیبیں بھرنے کو ترجیح دی .بھٹو کا شیخ مجیب کے مینڈیٹ کو ماننے سے انکار ہو یا بینظیر کا کونٹیکنا کیس اور سوئس اکاونٹ یا پھر نواز شریف کا مہران بنک سکینڈل اور آف شور کمپنیاں یہ تمام داغ کسی فوجی آمر نے نہیں لگائے بلکہ خود سیاستدانوں نے اپنا دامن داغدار کیا. ٹھیک جیسے آمروں کی جانب سے ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے جیسے بیانات کا سہارا لے کر اپنے غیر منصفانہ اقتدار کو دوام اور اپنے گناہوں پر پردہ ڈالا جاتا رہا ہے ویسے ہی سیاستدانوں کی جانب سے جمہوریت کو خطرہ ہے کی گردان الاپ کر اپنے گناہ چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے. خیر اب جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو وہاں اصول اور قائدے کی بات عجیب و غریب لگتی ہے.

ویسے بھی کراچی سے خیبر تک اور اب پنجاب کو بھی فوج ہی چلا رہی ہے تو پھر راحیل شریف کے بیانات سے حکمران جماعت کے ہمدردوں کو شکایت کیسی. سیاسی میدان میں ویسے بھی راحیل شریف نے حکمران جماعت کو ہر موقع پر بچایا ہی ہے وگرنہ کوئی مشرف جیسا جرنیل کب کا مواقعوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب تک میرے عزیز ہموطنوں کا راگ الاپ چکا ہوتا. اب بھی کم سے کم راحیل شریف کی مدت ملازمت پوری ہونے تک حکومت کو کسی بھی قسم کی غیر معمولی صورتحال کا سامنا عسکری ایسٹیبلیشمنٹ کی جانب سے نہیں پیش آ سکتا. اکثر تنقید کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ فوج بھی اس ملک کا ایک ادارہ ہے اور طاقت کے ایوانوں میں اس کا ایک حصہ بھی ہے جو کہ دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے.راحیل شریف کے بیان پر تنقید کرنے والے حضرات یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مشرف کے احتساب نہ کرنے کی بڑی وجہ میاں صاحب کی اپنی کمزوریاں تھیں نا کہ کسی ادارے کا دباو. آپ خود فیصلہ کیجئے اگر وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھا شخص کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے پاک ہو تو کوئی ادارہ اسے کس طرح دباو کا شکار کر کے اپنی مرضی کا فیصلہ لے سکتا ہے.دباو کا شکار مصلحتوں کے شکار افراد ہوتے ہیں اور رہنما بننے کیلئے پہلی شرط مصلحتوں کا شکار نہ ہونے کی ہوتی ہے.

راحیل شریف کو مدت ملازمت میں نہ پہلے توسیع چائیے تھی اور نہ اب وگرنہ انہیں توسییع ملنا چند سیکنڈز کی بات تھی.البتہ راحیل شریف کے بیان پر اپنی ہی جماعت کے چند حلقوں اور میڈیا ٹیم کے زریعے خود حکمران جماعت عسکری ایسٹیبلیشمنٹ میں موجود اپنے ہمدردوں کی ہمدردیاں بھی کھوتی جا رہی ہے. رہی بات سول ملٹری تعلقات یا جمہوری اقدار کی کہ جن کے تحت ادارے کا سربراہ وزیر اعظم کو جواب دہ ہوتا ہے تو اس کیلئے خود سیاستدانوں کو اپنے رویوں اور جماعتوں کے اندر جمہوری روایات کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے