احتساب یا سراب. . . ؟

بحریہ ٹاؤن کراچی میں زمینوں پر قبضے اور غریبوں سے زبردستی جگہ خالی کروانے کی ایک مفصل رپورٹ انگریزی روزنامہ "ڈان” میں شائع ہوئی. حیرت انگیز طور پر ملک کے الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی چینلز اور دیگر بڑے بڑے اخبارات میں بحریہ ٹاؤن کے اس ظلم جبر اور کرپشن کا کہیں ذکر نہ آیا.جس سے اندازہ ہوا کہ رئیل سٹیٹ سیکٹر ملک کے چوتھے ستون یعنی صحافت کو بھی دیمک زدہ کر چکا ہے.

اسی طرح اوکاڑہ میں ملٹری فارمز کی تعمیر اور کسانوں سے زبردستی زمین ہتھیانے کے خلاف غریب کسانوں نے فوج کے ادارے کے خلاف بھی ایک مظاہرہ کیا اور میڈیا پر اس مظاہرے سے متعلق بھی کوئی خبر نہ نشر ہوئی اور نہ ہی چھپی.

بحریہ ٹاؤن کا کراچی سکینڈل اور اوکاڑہ ملٹری فارمز کا سکینڈل طاقت پیسے اور لولے لنگڑے قانون کے گٹھ جوڑ کی ایک واضح مثال ہے.بحریہ ٹاؤن کراچی سپر ہائی وے کے قریب گوٹھ کی آبادی کو پولیس کے زریعے ڈرا دھمکا کر راتوں رات اس گوٹھ کے رہائشیوں کے مکانات گرا دیئے گئے. بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کی گئی یہ گری ہوئی حرکت عین اس وقت ہوئی جب قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی میں آپریشن کر رہے ہیں اور اس حرکت سے کراچی آپریشن کے "بلاامتیاز” اور تمام "جرائم پیشہ ” عناصر کے خلاف دعووں کی قلعی بھی کھل گئی.

بحریہ ٹاؤن یاد رہے ڈیفینس ہاوسنگ سوسائٹی کا کاروباری پارٹنر بھی ہے.دوسری جانب اوکاڑہ میں غریب کسانوں نے ملٹری فارمز کے نام پر اپنی زمین جبری طور پر چھینے جانے کی کوششوں کے خلاف احتجاج کیا. نہ صرف ان کسانوں کے خلاف مختلف مقدمات بنا دیئے گئے بلکہ پچاس سے زائد کسانوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا.اوکاڑہ ملٹری فارمز اور بحریہ ٹاون کراچی کے حالیہ جرائم پر تو "قائد انقلاب” جناب عمران خان نے بھی لب کشائی کی زحمت نہ کی جس سے اندازہ ہوا کہ غالبا اوکاڑہ اور کراچی "نیا پاکستان ” کے نقشے میں شامل ہی نہیں ہیں.

ان حالات و واقعات کے تناظر میں فوج کی جانب سے یہ بیان کہ احتساب بلاتفریق اور بلا امتیاز کرنا ملکی سالمیت کے لیئے ناگزیر ہے اخلاقی اعتبار سے کچھ مناسب نہیں لگا. کہوںکہ جب بھی فوج کے سربراہ یا ادارے کی جانب سے احتساب کی بات ہوتی ہے تو اکثر پرویز مشرف کا خیال آ جاتا ہے جسے احتساب کی چھری سے بچانے کیلئے کبھی فوجی ہسپتال میں چھپایا گیا اور کبھی بیماری کے جھوٹے میڈیکل سرٹیفیکیٹس کے پیچھے. جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کے بھائی پر بھی اربوں روپے تعمیراتی ٹھیکوں کے حوالے سے ہڑپ کرنے کا الزام ہے لیکن مشرف کی مانند عدنان کیانی کو بھی آرام سے بیرون ملک بھجوا دیا گیا.جبکہ عدنان کیانی کو قانونی نوٹس بھیجنے والے نیب کے معمولی سے کلرک کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا. این ایل سی سکینڈل میں ملوث اور گناہ ثابت ہونے کے باوجود جرنیلوں کو ہلکی سی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد چھوڑ دیا گیا. اسی طرح ایوب خان سے لیکر مشرف تک آئین روندنے والے آمر کسی بھی احتساب کے دائرے سے باہر ہی ہیں.حد تو یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے مجرم جنرل یحییٰ تک کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی. یوں ہمارے وطن میں ایک لکیر کھینچ دی گیی جس کے مطابق سویلین کیلئے قانون کا مطلب کچھ اور ہے اور جنریلوں کے لیئے کچھ اور.

دوہرے معیار رکھنے والے معاشرے میں ویسے بھی احتساب ناممکن ہوتا ہے.وطن عزیز میں آج تک سوائے سیاستدانوں کے کسی فوجی آمر کرپٹ جرنیل یا سرکاری ملازم نے احتساب کا سامنا نہیں کیا.بلکہ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے بیوروکریٹس کو ایوب خان اور ضیاالحق جیسے آمروں کی آشیرباد سے ہیرو بنا کر پیش کیا گیا.یہ دونوں وہ بیوروکریٹس تھے جو اپنے ادوار میں من و عن آمروں کی پالیسیاں وطن عزیز میں نافذ کرنے میں پیش پیش رہے.

خیر اگر ہم فوج کے موجودہ معنی خیز بیان کی جانب دیکھیں تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر دفع احتساب کا نعرہ لگا کر جو مارشل لا لگائے گئے کیا ان کا کچھ فائدہ ہوا یقینا اس کا جواب نفی میں ہے.بجائے احتساب کے آمروں نے پرانے سیاستدانوں پر مشتمل نئی سیاسی جماعتیں بنا کر صرف اقتدار کو طول دیا اور سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا.سوال یہ بھی ہے کہ وطن کی سرحدوں کی حفاظت کا حلف اٹھانے کے بعد سیاست میں مداخلت کرنا سیاسی جماعتوں کی ہشت پناہی کرنا اور ملک کے آئین و قانون کو روند ڈالنا کیا جرائم نہیں ہیں اور اگر یہ جرائم ہیں تو پھر ان کا احتساب کون کرے گا؟. احتساب کا کام نیب اور دیگر تفتیشی ادارو کے ذمے ہے جس کے بعد عدالت عالیہ کے پاس کسی کو بھی مجرم ٹھہرانے کا اختیار ہے.اگر یہ ادارے اور عدلیہ مضبوط ہونے نہیں پائے تو اس میں بڑی حد تک آمروں کا ہاتھ بھی شامل ہے.

ویسے بھی کہاوت ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے.دہشت گردی کے خلاف جنگ پر فوکس اور اسے جیتنا اس سیاسی احتساب سے زیادہ ضروری ہے .حافظ سعید مسعود اظہر یا حقانی نیٹ ورک کو پشت پناہی دینے کے بجائے ان شدت پسندوں کا احتساب اگر کیا جائے تو شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے. احتساب کی لال بتی کے پیچھے عوام کو لگا کر بجائے طاقت کی بساط پر چالیں چلنے کے اب ضروری ہے کہ سلیٹ کو صاف کر کے ایک نئی صبح کا آغاز کیا جائے. ماضی کو کریدنا راکھ کے ڈھیر کو کریدنے کے مترادف ہوتا ہے اور کہیں بھی اس ڈھیر کے نیچے دبی چنگاری پل پھر میں سب کچھ جلا دیا کرتی ہے.

ہمارے طاقت کے ایوانوں میں سب کا اپنا اپنا ایک ماضی ہے جہاں طاقت کی بساط کے تمام کھلاڑی غلطیاں کرتے آئے ہیں.مستقبل کی جانب سفر اس ماضی کو بھلا کر ہی ممکن ہے نا کہ اسں کو اپنے اپنے مفاد کیلئے استعمال کر کے.امید ہے کہ یہ چھوٹا سا نکتہ اس ملک کے اداروں کے سربراہوں کی سمجھ میں ضرور آئے گا. باقی بحریہ ٹاؤن کراچی سے متاثرہ غریب بے گھر افراد اور اوکاڑہ ملٹری فارمز کے شکار غریب کسان احتساب اور انصاف جیسے الفاظ کے بے معنی اور دوغلا ہونے کا واضح ثبوت ہیں.اور یہ وہ نقطہ ہے جو وطن عزیز کے پڑھے لکھے اور مڈل کلاس آبادی کے تضاد کی جانب واضح اشارہ دیتا ہے. اپنی اپنی جماعتوں رہنماوں یا ملکی دفاع کے نعروں کے جنون میں گم یہ طبقہ احتساب کے نعروں پر لبیک یا ان کی مخالفت تب ہی کرتا ہے جب اس کا اپنا مفاد خطرے میں ہو.یوں پاکستان کے اندر دو پاکستان نظر آتے ہیں ایک شہری علاقوں کی پڑھی لکھی مڈل کلاس آبادی کا پاکستان جو آبادی کا بمشکل پچیس یا تیس فیصد ہے اور ایک انہی شہری علاقوں اور دیہی علاقوں پر مشتمل غریب عوام کا پاکستان جو کہ آبادی کا قریب 70 فیصد ہے.ہم جو شہری علاقوں کے پڑھے لکھے مڈل کلاسیے ہیں یا نو دولتیے ہیں فلسفہ حالات حاضرہ یا دیگر دانشوارانہ سرگرمیوں کا سہارا لے کر اپنے آپ کو طاقت کے کھیل کا اہم کھلاڑی تصور کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا رکھتے ہیں.

دوسری جانب اوکاڑہ کے کسان اور کراچی سپر ہائی وے کے قریب کچے گھروں میں بسنے والے باشندے ہیں جن کی تکالیف دکھ اور درد کا درماں نہ تو دانشوارانہ تحریروں لے ذریعے ممکن نہ ہی ٹی وی ٹاک شوز یا سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے سے.ان افراد کو اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ نظام جمہوری ہے یا آمرانہ.کیونکہ نظام کوئی بھی ہو ان بیچاروں کا مقدر تبدیل نہیں ہوتا. ان لوگوں کی خالی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنے کی ہمت کریں تو پتہ چلے گا کہ زندگی جمہوریت آمریت یا احتساب سے نہیں روٹی روزگار اور چھت کے سہارے چلتی ہے.

اوکاڑہ کے کسان یا کراچی کے بحریہ متاثرین بھی پاکستان ہیں بلکہ اصل پاکستان کی جھلک ہیں.احتساب کے نعرے مارنے اور سیاسی مخالفت میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے اپنا اپنا احتساب ہم جیسے لوگوں کو خود کرنے کی ضرورت ہے.معاشرے میں پیسے رتبے حیثیت کو سلام اور کرپشن بد عنوانی جیسے سنگین جرائم کو قبولیت کی سند ہم لوگوں کے اجتماعی رویے سے ملتی ہے. ایک کوشش جو ہم پاکستان کیلئے صدق دل سے کر سکتے ہیں وہ کرپشن دھونس دھاندلی اور ناجائز پیسہ یا اختیارات کے استعمال دوارے زیرو ٹولیرنس دکھانا ہے. پاکستان کو مضبوط بنانا ہے یا پھر اپنی اپنی سیاسی جماعت اپنے اپنے اداروں کے مفاد یا اپنے اپنے ذاتی مفاد کو اس کا فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے