سردار سورن سنگھ،ایک محب وطن

متانت،وقار، چہرے پر سنجیدگی،اخلاق اور مسکرا ہٹ ،گھر بار سے دور لیکن محب وطن ا ور خدمت کے جذبے سے سرشار یہ ساری خصوصیات لئے یہ ہیں سردار سورن سنگھ .

ہماری پہلی ملاقات اسوقت ہوئی جب دہشت گردوں کے خلاف سوات آپریشن جاری تھا،میں اے آر وائے نیوز میں بطور رپورٹر کام کر رہا تھا،سوات آپریشن کے دوران وہاں سے ہجرت کرنے والے سکھوں کو گوردوارہ پنجہ صاحب میں رہائش دی گئی تھی . مجھے ادارے کی طرف سے ان کے حالات اور واقعات کے حوالے سے کام کرنے کی زمہ داری سونپی گئی،

میں گوردوارہ پنجہ صاحب گیا تو ایک نفیس سردار،ہنستا مسکراتا وہاں میرے پاس آیا جس سے میرا تعارف گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے اہم رکن کی حیثیت سے کرایا گیا،سردار صاحب کا تمام خاندان بھی گوردوارہ پنجہ صاحب میں رہائش پذیر تھا،سردار صاحب سے پہلی ملاقات کے دوران ہی ایسا لگا جیسے کئی سالوں کی جان پہچان ہے کوئی اجنبیت کا احساس ہی نہیں ہوا،

میں نے سوال کیا سردار صاحب اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں گوردوارے میں رہنا کیسے لگا تو جواب دیا اپنا ملک ہے اور اپنے ملک کےلئے قربانی تو دینی پڑتی ہے اور ویسے بھی میں خوش نصیب ہوں جس کو گوردوارہ پنجہ صاحب میں خدمت کا موقع بھی ملا۔۔۔اس دوران باقی سکھ برادری کے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی،ان سے پوچھا تو ان کی باتوں سے پتا چلا کہ سوات آپریشن کے دوران سکھ برداری کی طرف سے ایک تجویز یہ آئی کہ پاکستان غیر محفوظ لگ رہا ہے اسلئے یہاں سے ہجرت کی جائے تو سردار سورن سنگھ وہ شخصیت تھی جس نے واضح طور پر کہا کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے،ہمارے بزرگ سوات اور بنیر میں صدیوں پہلے آکر مقیم ہوئے ہمیں کبھی بھی اقلیت کا احساس نہیں ہوا،ہمیں بنیر اور سوات میں ہر لحاظ سے مرکزی حیثیت دی گئی اور بھائی چارے کے حوالے سے بھی مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہے ہیں اب اگر اپنی زمین اپنے ملک پر کڑا وقت آیا ہے تو ہم اسکو نہیں چھوڑیں گے ہم اس کا مقابلہ کریں گے اور جلد دوبارہ اپنے گھروں میں واپس آئیں گے،

یہ باتیں سن کر سردار سورن سنگھ کی عزت میری نظر میں اور بڑھ گئی،دوستی اور اپنائیت کا ایک رشتہ چل نکلا کیونکہ اگر ہمارے آبائو اجداد نے اس سرزمین کےلئے خون کی قربانی دی اور سردار سورن جیسی شخصیات نے مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی اس ملک کے دفاع کےلئے اگلی صف کا انتخاب کیا،سردار سورن سنگھ سے سوات آپریشن اور پنجہ صاحب کے قیام کے دوران کئی دفعہ ملاقات ہوئی ہر دفعہ انہوں نے پاکستان کی بات کی،

انہوں نے گوردوارہ پنجہ صاحب میں سکھ برداری کی رہائش اور خوراک اور دیگر مشکلات کا کبھی ذکر نہیں کیا ان کا ایک جواب ہوتا حکومت اور ہم سب ملکر بہتری کی کوشش کر رہے ہیں،وقت گزرتا گیا سوات آپریشن کامیاب ہوا امن ہو گیا اور وہاں سے ہجرت کرنے والے واپس چلے گئے،جن میں سردار سورن سنگھ بھی شامل تھے،اس کے بات ایک دو دفعہ فون پر بات ہوئی سردار صاحب کہتے کہ سوات میں سب ٹھیک ہو گیا آئو دیکھو کتنی خوبصورت جگہ ہے لیکن ملاقات کا وقت نہ ملا،

وہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تو ایکدن اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ان سے ملاقات ہوئی،پہلی نظر میں انہوں نے مجھے پہنچان کر آواز دی کہا یار تو تو غائب ہی ہو گیا نہ سوات آیا اور نہ کوئی ملاقات کی میں عرض کیا سردار صاحب آپکو پتہ ہے صحافت میں اپنے لئے یا کسی کےلئے وقت نکالنا بہت مشکل ہے،خیر انہوں نے پشاور آنے کی دعوت دی یہ میری سردار سورن سنگھ سے آخری ملاقات تھی،گزشتہ روز انکے قتل کی خبر سنی تو لگا کہ کوئی اپنا ہم سے بچھڑ گیا ،اس ملک کو ایک محب وطن نے اپنے سرخ لہو سے پھر سیراب کر دیا کہ اس کی خوشحالی اور ترقی کی راہ میں کہیں رکاوٹ نہ آئے،سردار سورن سنگھ نے ہمیں اپنے وطن سے محبت اور مٹی سے عشق کا جو سبق دیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا،سردار سورن سنگھ ہمیشہ ہماری باتوں میں اور محب وطن لوگوں کی صورت میں ہم میں موجود رہیں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے