تیسری آنکھ. . . طاقت کا منبع کون؟

عدالت عظمیٰ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کرادیئے گٗئے لیکن چار ماہ گزر جانے کے باوجود پنجاب میں ابھی تک اختیارات بلدیاتی نمائندوں کے سپرد نہیں ہوئے ۔۔ صوبے میں انتخابی دنگل بھی خوب ہوا ۔۔ لیکن اب جو کچھ ہو گا وہ شاید اس دنگل سے بھی زیادہ دلچپسپ ثابت ہو ۔۔۔۔

آگے ہوگا کیا ؟؟؟آیئے ہم آپ کو بتاتے ہیں ۔۔۔

یہ انتخابات تو بظاہر اقتدار کی نچلی یعنی گاؤں، محلے کی سطح پر منتقلی کے لئے ہوئے ۔ جس کا دعوی پنجاب حکومت بھی کررہی ہے لیکن جو قانون بنایا گیا وہ اس دعوے کی نفی کرتا نظرآرہا ہے ۔۔ قانون دیکھ کر باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ یہ اقتدار کو نچلی سطح پر منتقلی کے لئے نہیں بلکہ اس کا مطالبہ کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔۔۔۔ کیسے آیئے ہم آپ کو بتاتے ہیں

قانون کے مطابق ہر ضلع کا ایک چیئرمین ہو گا، بڑے شہروں کے لئے اس عہدے کو میئر کا نام دیا گیا ہے۔جس کا انتخاب اس ضلع یا شہر کی تمام یونین کونسلوں کے منتخب چیئرمین اور دیگرارکان جمہوری انداز سے کریں گے۔۔۔

میئر کی ذمہ داریوں میں شامل ہو گا کہ وہ تجاویز دے، ہدایات جاری کرے، تقریبات میں شرکت کرے اور کاموں کی نگرانی کرے۔

لیکن کام کرے گا کون؟ؕ؟؟؟

قانون اس کا جواب ۔۔چیف افسر کی صورت میں دیتا ہے۔۔ یعنی ۔۔۔۔۔۔چیف آفیسر تمام میونسپل سروسز کا انچارج ہو گا۔ قانونی مسائل، تعلقات عامہ، ملازمین کے معاملات اور دیگر عملی کام جیسے خریدو فروخت وغیرہ بھی دیکھے گا ۔۔ چیف افسر کا تقرر حکومت کرے گی اور وہ میئر یا عوامی نمائندوں کی بجائے سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کے ماتحت لوکل گورنمنٹ بورڈ جیسے غیرمنتخب ادارے کو جواب دہ ہوگا ۔۔۔

یوں کرسی دیکھنے میں تو میئر ہی کی بڑی ہو گی لیکن زیادہ مضبوط اور گھومنے والی یقینا چیف افسر کی ہی ہوگی

اب کچھ بات ہوجائے اختیارات کی ۔۔۔۔

اسپتال میں ڈاکٹر حاضر ہیں یا نہیں؟ دوا مل رہی یا دلاسہ؟ اسکول میں بچے پڑھ رہے ہیں یا گائے، بھینسیں بندھی ہوئی ہیں ؟؟ اگر آپ سوچ رہے ہیں بلدیاتی نمائندے یہ تمام مسئلے دیکھے اور انہیں حل کریں گے تو ایسا سوچئے بھی مت ۔۔ کیونکہ ضلع میں صحت اور تعلیم کے معاملات سے منتخب نمائندوں کا کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔۔ اس نیک کام کے لئے بنے گی ہرضلع میں ایک صحت اور ایک تعلیمی اتھارٹی ۔۔۔ جس کے تنخواہ دار سربراہ کا تقرر حکومت کرے گی ۔ یہ سرکاری افسران اپنے اپنے شعبے میں مختار کل ہوں گے اور ان کا آپ کے منتخب نمائندوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا ۔۔۔

اختیارات کے بعد ذکرکرتے ہیں ترقیاتی فنڈز کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بلدیاتی اداروں کے پاس بے شک اختیارات نہ ہوں لیکن ترقیاتی فنڈز کو ملیں گے ہی نا؟؟

چلیئے آپ کی یہ خوش فہمی بھی دور کردیتے ہیں ۔۔۔

قانون کے تحت ایک لوکل گورنمنٹ کمیشن بنے گا ۔۔ جس کے چیئرمین صوبائی وزیر لوکل گورنمنٹ ہوں گے جبکہ ارکان میں دو ایم پی اے حکومتی اور ایک اپوزیشن کا ہو گا۔ صوبائی حکومت کے نامزد دو غیر منتخب ٹیکنو کریٹس بھی کمیشن کا حصہ ہوں گے ۔۔ کمیشن متعلقہ علاقے کے ایم این اے ۔۔ ایم پی اے اور بلدیاتی نمائندوں کی مشاورت سے فیصلہ کرے گا کہ پیسہ کہاں اور کن منصوبوں پر خرچ کرنا ہے ۔۔۔ یوں عملی طور ترقیاتی فنڈر قومی اور صوبائی کے ارکان خرچ کریں گے ۔۔ البتہ ۔۔ مقامی حکومتوں کے نمائندوں، میئر وغیرہ کو کمیشن یہ ضرور بتا دیا کرے گا دستخط یا انگوٹھے کا نشان کہاں لگانا ہے۔۔۔

رہی بجٹ کی بات تو یہ منظور کرنا تومقامی حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔۔ لیکن مرضی سے خرچ کرنا اس کے اختیارات میں شامل نہیں۔۔ کیوںکہ صوبائی حکومت اس پر نظرثانی کرنے یا پھر مسترد کرنے کا مکمل اختیار رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنے محدود اختیارات کے بعد بھی اگر کسی بلدیاتی ادارے نے پر پرزے نکالے پھر حکومت کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو اس کا انتظام بھی کرلیا گیا ہے ۔۔ اس کام کے لئے ایک لوکل گورنمنٹ کمیشن بنے گا ۔۔۔ جس کا کام ہوگا مقامی حکومتوں کی کارکردگی پر نظر رکھے، چھاپے مارے، تحقیقات کرے اور حکومت کو سفارش کرے کہ فلاں میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کو برطرف کریا جائے۔۔۔ کمیشن کے کام کو آسان بنانے اور عدالتی جھنجھٹ میں پڑنے بچنے کے لئے اسے سول کورٹ کے مساوی اختیارات دیئے گئے ہیں ۔۔ یوں کمیشن جب چاہئے آپ کے منتخب نمائندے کو گھر بھیج سکے گا ۔۔۔

کمیشن تو میئر اور چیئرمین یا پھر ان نائبین کو ہی گھر بھیجے گا لیکن پنجاب حکومت تو پورے کے پورے بلدیاتی ادارے کو ہی جب چاہے رخصت کرسکتی ہے ۔۔ آئینی طور قومی اور پنجاب اسمبلی کی معیاد جون 2018ء میں پوری ہوگی ۔۔ یوں ایم این اے اور ایم پی اے بلدیاتی نمائندوں سے پہلے رخصت ہو جائیں گے۔۔۔۔

اب بڑے سر پر نہ ہوتو چھوٹے کوئی نہ کوئی گل کھلاسکتے ہیں خاص طور پرعام انتخابات 2018ء میں حکومت کے لئے کسی مشکل کا باعث بن سکتے ہیں تو اس کا حل لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی شق 126 میں مہیا کردیا گیا ہے۔۔۔ اس شق کے مطابق صوبائی حکومت عام انتخابات سے قبل مقامی حکومتوں کو تحلیل کرنے کی مجاز ہے اور حکومتوں کے خاتمے کے بعد تمام اختیارات ایڈمنسٹریٹرز کے سپرد کردیئے جائیں گے ۔۔

اس طرح انتخابات کا میلہ تو سجادیا گیا لیکن منتخب مقامی حکومتیں مکمل طور پر بے اختیار اور صوبائی بیورو کریسی کے رحم وکرم پر ہوں گی اور پھر ابھی وہ سنبھل بھی نہ پائیں گی کہ ان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔

یوں ہنگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے گا۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے