نئے جال والے پرانے شکاری

اگر اوشو ٹی وی اینکر ہوتے اور شیلا پیار میں ڈوبی ہوئی عقیدت کے ساتھ ان سے پوچھتی کہ :

’’بهگوان! ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں فوج نے احتساب کا عمل اپنے بیرکس سے شروع کیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف رواں ماہ میں دو بار قوم سے خطاب کر چکے ہیں۔ پہلی بار انہوں نے سپریم کورٹ کے رٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کا اعلان کیا مگر کوئی رٹائرڈ مصنف آگے نہیں آیا اور اپوزیشن نے بھی خوب شور مچایا ۔ اس لیے وہ دوسری بار پی ٹی وی پر آئے اور انہوں نے سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک اور کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ مگر عمران خان چیف جسٹس کو لکھے ہوئے خط میں’’ ٹی او آر‘‘ سے اتفاق نہیں کرتے۔ آج وہ وزیر اعظم کو دباؤ میں لینے کے لیے اسلام آباد ایف نائن میں طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور لاہور میں جماعت اسلامی اپنی تنظیمی قوت دکھا رہی ہے۔ جب کہ کراچی میں متحدہ کے باغی رہنما مصطفی کمال اپنی پارٹی ’’پاک سرزمین‘‘ کا پہلا جلسہ باغ جناح میں کر رہے ہیں۔ آپ اس صورتحال کو کس طرح دیکھتے ہیں اور ’’کرپیہ‘‘ یہ بھی بتائیں کہ کیا پاکستان میں جمہوریت کو ایک بار پھر خطرات لاحق ہوگئے ہیں؟‘‘

’’یوشیپ ‘‘بالوں والی ’’ٹام بوائے ‘‘ ٹائپ خوبصورت چیلی کا یہ طویل سوال سن کر اوشو سب سے پہلے تو ایک موہوم سی مسکراہٹ اپنے مونچھوں کے سفید بالوں میں چھپے ہوئے ہونٹوں پر لاتے اور پھر سنگ مرر سے بنے ہوئے بت کی طرح سنجیدہ ہوتے ہوئے کہتے کہ:

’’شیلا! خطرہ اس کو ہوتا ہے جو ہو! جو ہے ہی نہیں اس کو کیا خطرہ؟پاکستان میں جمہوریت ایک ’’نام‘‘ ہے۔ ایک ’’نعرہ‘‘ ہے۔ نام اور نعرے کو کوئی خطرہ کیوں ہو؟ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا نام سانس لیتا ہے؟ کیا نعرے کا کوئی دل ہوتا ہے؟ اور وہ دھڑکتا بھی ہے؟ ایسا کچھ نہیں۔ یہ محض ایک ڈھونگ ہے۔ اور یہ ڈھونگ صرف ہمارے پڑوسی ملک میں نہیں ۔ خود ہمارے اپنی ملک میں ایک عرصے سے جاری ہے۔ اور کامیابی سے جاری ہے! پاکستان کی بدقسمتی یا خوشقسمتی یہ ہے کہ وہاں وہ ڈھونگ کامیابی سے ہمکنار نہیں۔ اس لیے بار بار بحران جنم لیتے ہیں۔

اور برطانیہ کے بطن سے جنم لینے والی وہ جمہوریت جو اس وقت امریکہ کے آغوش میں ہے؛ وہ بھی ایک زندہ جمہوریت نہیں۔ وہ اس نظام کی ممی ہے جو کب کا مرچکا۔ مغرب میں جمہوریت اس جانور جیسی ہے جس کو شکار کرنے کے بعد اس کی کھال میں بھوسہ بھر کر ڈرائنگ روم میں سجا کر رکھا جائے!مغرب اس فن کا ماسٹر ہے۔ اس نے جمہوریت کے چیتے کو ایک ایسا اسٹفڈ ماڈل بنا دیا ہے جس پر حقیقت کا گمان یقین میں تبدیل ہوتا رہا ہے۔ مگر یہ بات تم اپنے گیان کے گرہ سے باندھ لو کہ دنیا میں کہیں کوئی جمہوریت نہیں۔ بس اچھی اور بری آمریتیں ہیں!
اس لیے جمہوریت کو درپیش خطرے کا سوال چھوڑو دو۔

باقی رہی پاکستان کی سیاسی صورتحال ! تو وہ اس وقت قابل دید مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔

جہاں تک پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا تعلق ہے تو ان کے اپنے سر بال بھلے چھدرے اور مختصر ہوں مگر ان کی سیاست کے بال بیحد گھنے اور بہت لمبے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس بار معاملہ اس مشہور اردو شعر جیسا ہے کہ:
’’پاؤں جو الجھا یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے جال میں صیاد آگیا‘‘

میاں نواز شریف کا انتخابی نشان بھلے شیر ہو مگر وہ اصل میں ایک شکاری ہیں۔ بڑے ماہر اور تجربہ کار شکاری! وہ جانتے ہیں کہ چڑیوں کا شکار ’’تیر‘‘ سے نہیں کیا جاتا۔ اس کے لیے وہ میگا اسکیموں کا بہت بڑا جال بچھاتے ہیں۔ اس جال کی سائز اتنی بڑی ہوتی ہے کہ شکار اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے۔ ان قیدی پرندوں کے آشیانے اس جال میں ہی ہوتے ہیں۔ وہ جال جہاں ایک چڑیا اپنے گھونسلے میں بلکتے ہوئے بچوں کے لیے چاول کے چند دانے لاتی ہے۔

اور شکاری حکومت الیکٹرانک میڈیا پر اشتہار کی صورت میں یہ گیت چلواتی ہے:
’’چوں چوں کرتی آئی چڑیا
دال کا دانہ لائی چڑیا۔۔۔!‘‘
ایک افسوسناک ماحول میں اداس گیت جیسا ہے وہ ’’نظام‘‘ جس کو جمہوریت کہا جاتا ہے!

اب ان کو کون بتائے کہ جمہوریت محض ایک اعلان نہیں۔ یہ ایک وعدہ ہوتا ہے۔ جو رشتہ قائم کرتا ہے اور ایسا رشتہ تو کوئی بھی اس ملک کے قائم نہیں کرتا جو ہر آزمائش میں پورا اترے۔ یہ لوگ ایسا وعدہ کرتے ہیں جس کے وفا ہونے کا اعتبار سننے والے کو بھی نہیں ہوتا۔جمہوریت لفظ کی معنی ہے ’’عوام کی حکمرانی‘‘ کیا عوام کی حکمرانی ایسی ہوتی ہے؟ کیا حکمران ایسے ہوتے ہیں جیسے ہمارے عوام ہیں؟ تم تیسری دنیا کی بات چھوڑو! پہلی دنیا میں بھی دیکھو تو تم کو عوام سات دنوں میں سے صرف ایک دن جیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ وہ لوگ ان معاشروں میں رہتے ہیں جن کو ہم حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر وہاں لوگ پانچ دن آفس اور ایک دن گھر کا کام کرتے ہیں تب جاکر انہیں آزادی کے ساتھ ایک دن جینے کا حق میسر ہوتا ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیسری دنیا کے عوام ہفتے کے سات دنوں میں ایک دن بھی زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں کرسکتے۔ کیوں وہ قیدی ہیں۔ اپنے معاشی اورمعاشرتی حالات کے قیدی! یہ سب کچھ سیاسی حالات کی وجہ سے ہے۔ اگر جمہوریت واقعی ایک حقیقت ہوتی۔ ایک عمل ہوتی تو اس کا پھل عوام کو حاصل بھی ہوپاتا۔ مگر یہ تو ایک بات ہے۔ ایک تصور ہے۔ ایک تصویر ہے۔ تصویر خواہ کتنی بھی خوبصورت اور پرکشش کیوں نہ ہو مگر تصویر تو تصویر ہی ہوتی ہے۔ کسی پکے ہوئے پھل کی پیاری سی تصویر بھوکے کا پیٹ تو نہیں بھر سکتی۔ وہ تو اس کی بھوک اور بڑھا دے گی۔اور یہی حشر ہماری دنیا میں جمہوریت کا ہوا ہے۔ جمہوریت بھی ایک تصور ہے۔ ایک تصویر ہے۔ حقیقت نہیں۔ یہ ایک مایا ہے۔ عوام اس کے جال میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔یہی تو مایا ہوتی ہے کہ انسان جانتا بھی ہے کہ یہ حقیقت نہیں مگر پھر بھی اس پر مر مٹتا ہے۔

برائے نام جمہوریت ایک مایا نگری ہے۔ اس مایا نگری میں بہت سارے جادو ٹونے ہوتے ہیں۔ اس میں بڑے کمال کی چالاکیاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ اس میں غضب کی اداکاری کرنا پڑتی ہے۔ اگر انسان کے دل میں لڈو بھی پھوٹ رہے ہوں تب بھی اسے ماحول کی ضرورت کے مطابق افسردہ نظر آنا پڑتا ہے۔ اس کا دل زور زور سے قہقہے لگانے کو بھی چاہے تب بھی وہ جھوٹ موٹ کے آنسو بہاتا ہے۔ اور اگر وہ واقعی افسردہ بھی ہو مگر حالات ہنسنے کا تقاضہ کرے تو اسے خوش نظر آنا پڑتا ہے۔ یہ لیڈری ایک اداکاری ہے اور ووٹ کی پرچی والی ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد انسان سیاسی فلم کو اس طرح دیکھتا ہے کہ وہ اس فلم کا حصہ بن جاتا ہے۔

میاں نواز شریف پاکستانی سیاست کے سوبر اور عمران خا ن جذباتی اداکار بن کر اسٹیج پر آتے ہیں۔ ہر فنکار کے چاہنے والوں کا الگ حلقہ ہوتا ہے۔ وہ حلقہ چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑا بھی۔ وہ حلقہ کبھی بڑا ہونے لگتا ہے اور کبھی سکڑنے لگتا ہے۔ سیاسی مقبولیت کا حلقہ ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہئیے کہ سیاسی مقبولیت کا حلقہ بڑھانے کے لیے صرف مذکورہ لیڈر کی صلاحیتیں کافی نہیں۔ اس میں نظر نہ آنے والے پروڈیوزرس اور ڈائریکٹرز کے ساتھ ساتھ اب میڈیا کا بھی بڑا اہم کردار ہو چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کراچی میں ’’پاک سرزمین‘‘ جیسے اچھے الفاظ سے وجود میں آنے والی پارٹی کو غبارے کی طرح پھلایا جا رہا ہے۔ اس میں ہوا کہاں سے بھری جا رہی ہے؟سب جانتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ پردے کے پیچھے کون ہیں؟ مگر میڈیا سے لیکر سیاسی مبصران تک سب جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں۔ کیوں کہ ایک ڈرامے کو آگے بڑھانا ہے!

پاناما لیکس والا ڈرامہ تو پاکستان کے وزیر اعظم کے لیے حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ سب کو پتہ ہے دو یا تین بار حکمران رہنے والے سیاستدانوں کے پاس بیرون ملک بہت پیسہ ہے مگر اتفا ق سے میاں نواز شریف کے خاندان کا عالمی میڈیا میں نام آگیا اور پیپلز پارٹی نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے مسلم لیگ (ن) سے نوراکشتی کرنے کی کوشش بھی کی مگر اس موقعے کی تاک میں بیٹھے ہوئے عمران خان احتجاجی میدان میں کود پڑے۔

جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو فوج نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے موڈ میں نہیں مگر وہ ہر وقت اور ہر رخ سے حکومت کو مستقل دباؤ میں رکھنا چاہتی ہے۔ گذشتہ سات برس سے فوج کی یہی پالیسی ہے۔ آصف زرداری نے اپنے پانچ برس مستقل دباؤ میں گذارے اور اب میاں نواز شریف کی باری ہے۔ فوج نے شایداپنا کردار طعہ کردیا ہے۔ وہ پورے سیاسی منظرنامے پر اپنی عقابی نظر رکھے گی اور کسی حکمران کو من مانی کرنے نہیں دے گی۔ وہ کسی سیاسی جماعت یا اس کے رہنما کو وہ لائن کراس کرنے کی اجازت نہیں دے گی جس کے بعد سکیورٹی خدشات پیدا ہوجاتے ہیں۔

باقی پاکستان کے سیاسی میدان میں سیاسی کھیل جاری رہے گا اور پورے جوش و خروش سے جاری رہے گا۔ہر جماعت اپنی طاقت اور قد کے مطابق جال پھینکے گی۔ ہر جماعت کو کوشش اور قسمت کے سنگم سے کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا رہے گا۔ اس لیے یہ جمہوری کھیل ہے۔ اس میں کمیشن تشکیل دینے کے لیے حکومت کی طرف سے لکھا جانے والا خط بھی ایک چال ہے اور اس خط پرپیپلز پارٹی کا کلکیولیٹیڈ ردعمل بھی ایک چال ہے اور اس ماحول میں اپنی پارٹی کی بیسویں سالگرہ منانے کی آڑ میں طاقت کا مظاہرہ کرنے والے عمران خان کا ایف نائن پارک میں جلسہ بھی ایک چال ہے اور لاہور میں جماعت اسلامی کا جلسہ بھی ایک سیاسی چال ہے ۔ ایک ایسی چال جس کی نہ کوئی راہ ہے نہ رخ! اور پاناما لیکس والے اشوز سے بیگانہ بن کر کراچی میں صرف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے والی ’’نئی ایم کیو ایم‘‘ عرف ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کا پہلا جلسہ بھی ایک چال ہے ۔

اور اس کھیل کی ہر چال ایک جال ہے ۔

اور یہ جال ہاتھوں میں اٹھا کر چیخ رہے ہیں پاکستانی سیاست کے پرانے شکاری!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے