تین جلسیاں اور آج کے دور کا اصغر خان

اتوار کو ملک میں تین جلسے ہوئے. ملکی سیاست میں جاری بحران کے تناظر میں ان کی ایک خاص اہمیت تھی. پہلا جلسہ لاہور میں جماعت اسلامی نے کیا.اور اس کے بعد اسلام آباد میں عمران خان اور کراچی میں مصطفی کمال نے میدان سجایا. یہ تینوں افراد اور جماعتیں بنیادی طور پر "فرشتوِں” کی حمایت یافتہ ہیں اور میدان میں انہی کے اشارے پر اتری ہیں.جو بات عجیب لگی وہ ان جماعتوں کے سربراہوں کا احتساب کا مطالبہ تھا. جناب سراج الحق جب حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور احتساب کا ذکر کر رہے تھے رو خیبر بنک پختونخواہ سکینڈل اور افغان جہاد کے نام پر لگائے گئے لاکوں ڈالرز کے الزامات کی گونج سماعتوں میں گونج رہی تھی. وطن عزیز میں طالبان کی خاموش حمایت اور شدت پسندی کے کلچر کو فروغ دینے جیسا گھناونا جرم بھی ان کے اور ان کی جماعت کے ساتھ ساتھ چپکا نظر آ رہا تھا. ادھر مصطفی کمال جب ظلم جبر کے خاتمے کی بات کر رہے تھے تو کراچی میں ان کے دور میں ہی کیئے گئے لاتعداد ٹارگٹ کلنگ کیسے جرائم چائنہ کٹنگ اور 12 مئی جیسے لاتعداد سانحے نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے.

عمران خان جب نواز شریف کو دوران تقریر کرپٹ اور مجرم قرار دے رہے تھے تو خیبر پختونخواہ میں قیمتی معدنیات کے ٹھیکے جہانگیر ترین کو نوازنے سے لیکر شوکت خانم کے مشکوک آڈٹ اور خود علیم خان اور جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیاں بھی بار بار دکھائی دے رہی تھیں. یہ ٹیموں جلسے جنہیں اگر شرکا کی تعداد کے حوالے سے جلسیاں کہا جائے تو مناسب ہو گا ایک احتجاجی تحریک کا باقائدہ آغاز تھے. ان جماعتوں کا یوں ایک ہی دن جلسے منعقد کرنا 1977 کی پی این اے کی تحریک کی یاد دلا رہا تھا جو اس وقت کی ہس پشت قوتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلوای تھی. جماعت اسلامی اور مصطفی کمال کا یوں استعمال ہونا سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں تین چار قومی اسمبلی کی نشستوں سے سے زیادہ کچھ کر دکھانے کی اہلیت نہیں رکھتیں اس لیئے جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے سے ان جو فائدہ ہو سکتا یے لیکن تحریک انصاف کا ابھی تک پس ہشت قوتوں کے ہاتھوں استعمال فہم سے بالاتر ہے. تحریک انصاف کے یوم تاسیس اور احتجاجی لائحہ عمل تشکیل دینے کے حوالے سے ایف 9 پارک اسلام آباد کے جلسے میں شرکا کی تعداد دیکھ کر وہ مشہور کہاوت بھی یاد آ گئی کہ "کھودا پہاڑ نکلا چوہا”. جس نے بھی عمران خان کو اس پارک میں جلسہ کرنے کا مضحکہ خیز مشورہ دیا تھا عمران خان کو اس ایڈوائزر کو جماعت کی فیصلہ سازی سے علحدہ کر دینا چائیے. ایف نائن پارک کو بھرنا کوئی آسان کام نہیں اور کوئی بھی باشعور سیاستدان کبھی بھی احتجاجی تحریک کے آغاز یا یوم تاسیس کے موقع پر اس مقام کا انتخاب نہیں کر سکتا تھا.

ان تینوں جلسیوں میں عوام کی تعداد نے یہ بات بھی عیاں کر دی کہ عوام نے پانامہ لیکس والے مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا کے زریعے عوام کو گھروں سے باہر نکال کر حکومت کے خلاف مظاہروں کا منصوبہ پھر عوام نے مسترد کر دیا. لاہور اور اسلام آباد کے جلسوں کا آغاز نواز شریف اور اختتام بھی نواز شریف کی زات تھی.عمران خان اور سراج الحق نے حسب روایت وہی ایک ہی دھاندلی اور چوری کی گردان الاپی اور اپنے منہ خود ہی اپنی تعریفیں کرنے کے بعد گھر کی راہ لے لی.رائے ونڈ دھرنہ کے بارے میں اعلان کی عمران خان کو البتہ ہمت نہ ہوئی کیونکہ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ رائے ونڈ میں دھرنے کی صورت میں جوابی دھرنہ بنی گالہ آور زمان پارک کے سامنے حکمران جماعت کے کارکنوں کی جانب سے دیا جا سکتا ہے.اس لیئے عمران خان نے اگلے ہفتے چیئرنگ کراس لاہور پر جلسے کا اعلان کر کے فیس سیونگ کی کوشش کی.

دوسری جانب نواز شریف نے جلسہ اور دھرنوں کی سازشوں کا جواب دینے کیلئے خود بھی جلسوں کے منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس ضمن میں پہلا جلسہ عمران خان اور جماعت اسلامی کے ہوم گراونڈ کے پی کے میں منعقد ہو رہا ہے.اب عوام کی جو تعداد نواز شریف کے جلسوں میں ہو گی عمران خان اور جماعت اسلامی اس کا مقابلہ کیسے کریں گے یہ تحریک انصاف کیلئے ایک نیا چیلنج ہے. سراج الحق اور ان کی جماعت یا مصطفی کمال تو مصنوعی تنفس کے سہارے سیاست میں زندہ ہیں لیکن عمران خان نے اپنی احمقانہ طرز سیاست سے نواز شریف کو اگلے عام انتخابات کیلئے انتخابی مہم ابھی سے شروع کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے .دوسری جانب اورنج ٹرین اور میٹرو کے منصوبوں پر تنقید کر کے عمران خان نے پنجاب کے انتخابی میدان سے اپنے آپ کو خود ہی باہر کر دیا ہے.جس قدر زہر افشانی خان صاحب ان منصوبوں کے بارے میں کرتے ہیں اتنا ہی نواز شریف کا پنجابی ووٹ بنک مضبوط ہوتا ہے. جو بات عمران خان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہیں وہ ایک سیلیبریٹی فگر اور سیاسی رہنما کے درمیان واضح فرق ہے. سٹیج پر آ کر ایک تحکمانہ انداز میں بیٹھنا ایک مغرور انداز بیاں کم سے کم سیاسی میدان میں کارگر نہیں ثابت ہو سکتا. ایک اور بات جو اس ناکام جلسے بلکہ جلسی کے بعد خان صاحب کو کام کرنے کی اشد ضرورت ہے وہ ان کا اور عوام کے درمیان رابطے کی کمی کو کم کرنے کا اقدام ہے.عمران خان خود راولپنڈی کے حلقہ NA56 سے منتخب ایم این اے ہیں اور اگر اپنے حلقے سے بھی وہ مناسب تعداد میں اپنے ووٹرز کو گھروں سے نکال کر جلسہ گاہ تک نہیں پہنچا سکتے تو پھر انہیں اگلے انتخابات میں اس حلقے سے اپنی سیٹ بچانے کی فکر کرنی چاھیے.

الزامات بہتان اور رونے دھونے کو پنجاب کے ووٹرز قطعا پسند نہیں کرتے اور عمران خان اس بات کو جتنا جلدی سیکھ جائیں اتنا ہی بہتر ہے کہ اب خود ان کی اپنی عمر بھی بزرگی والی ہے. دوسری جانب عمران خان کے فلاپ شو اور عوامی رد عمل سے اس بات پر مہر ثبت ہو چکی ہے کہ نواز شریف کو احتجاج کے زریعے ہٹانا قطعا ممکن نہیں ہے.اور ضمنی انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں. جہاں جن چار حلقوں کو لے کر عمران خان کے زریعے دھاندلی کی سازش رچائی گئی وہاں دو حلقوں پر مسل لیگ نون پی کامیاب ہوئی جبکہ خواجہ آصف والے حلقے پر تحریک انصاف کا موقف عدالت نے غلط قرار دیا اور خواجہ سعد رفیق کا حلقہ کا نتیجہ بھی جلد سامنے آ جائے گا جو کہ حکمران جماعت کے حق میں ہی ہو گا. 2014 میں نواز شریف کے خلاف دھاندلی کے ایشو پر احتجاج کی کال غیر موزوں بھی تھی اور اس کی ٹائمنگ بھی درست نہیں تھی لیکن پانامہ لیکس دوسرے احتجاج کی کال کی ٹائمنگ اور حالات عمران خان اور پس پشت قوتوں کے حق میں ہیں اور اگر ان تمام معروضی حقائق کے باوجود عوام کی بڑی تعداد احتجاج کیلئے تیار نہیں تو پھر اس نئی بساط کا پہلا مرحلہ نواز شریف کے نام ہے. یعنی اگر نواز شریف کو پس پشت قوتیں ہٹانا چاہتی ہیں تو صرف آور صرف جمہوری نظام لپیٹ کر ہی یہ مقصد پورا کیا جا سکتا ہے.

اب جمہوری نظام اگر فرض کیجیئے لپیٹا بھی جائے تو عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے حصے میں کیا آئے گا اس کا اندازہ لگانا ہر چند بھی مشکل نہیں ہے. لیکن ہوس اقتدار میں عمران خان اور جماعت اسلامی جمہوری بیانیے کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہی جا رہے ہیں.یہ طاقت کے ایوان تو ہمیشہ سے ہی چہروں کا بدلنا دیکھتے آئے ہیں.آج نواز شریف برسر اقتدار ہیں تو کل عمران خان بھی ہو سکتے ہیں لیکن جمہوری بیانیے کو کمزور کر کے صرف اور صرف آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں جمہوریت سے نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں. جماعت اسلامی اور مصطفی کمال کو جمہوریت سے زیادہ آمریت بھاتی ہے اس لیئے وہ جمہوری بیانیے کو کمزور کرتے ہیں لیکن تحریک انصاف کیلئے جمہوری بساط لپیٹے جانے کا مطلب ان کی سیاسی بساط بھی لپیٹے جانا ہے. جو نوشتہ دیوار اس وقت تحریک انصاف پڑھنے سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف نے اب اس بازی میں سب کچھ داو پر لگا دیا ہے یا تو اب یہ نظام لپیٹا جائے گا یا پھر نواز شریف مخالف بیانیے پر حاوی آ جائیں گے. ایسے میں عمران خان کو دیکھ کر تحریک استقلال کے آصغر خان صاحب کی یاد آ جاتی ہے جو پس پشت قوتوں کے اشاروں پر نظام لپیٹ کر بھی کچھ نہ حاصل کر پائے اور بھٹو کے جانے کے بعد گوشہ تنہائی میں زندگی بسر کر دی.عمران خان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہماری سیاست میں ایک اور اصغر خان نے جنم لے لیا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے