قصہ تین ذیلی جماعتوں کا

صبح صبح ایک دوست نے کیا خوب کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی تین ذیلی جماعتوں کے مختلف شہروں میں جلسے ہو رہے ہیں۔لاہور میں ایک عددجلسہ جماعت اسلامی کا، کراچی میں اپنے بھائی مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کا ۔۔ اور پھر سب سے دھانسو کام اسلام آباد میں اپنے کپتان خان کی جماعت پی ٹی آئی کے یوم تاسیس کے موقع پر جلسہ۔۔

دوست صاحب فرمانے لگے۔۔ تینوں ذیلی جماعتیں ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہتی ہیں، وہ بھی عوام کو کرپٹ کرکے۔۔ میں نے پوچھا کیسے ؟
تو کہنے لگے ۔۔ اپنے بھائی مصطفی کمال صاحب بھی شاندار انسان ہیں، تمام عمر جس پیڑ کا سایہ سمیٹتے رہے آج انہیں اچانک لگا کہ یہ درخت کاٹ دینا چاہیئے کیونکہ ان کے اپنے پر نکل آئے ہیں اور وہ سوچ رہے ہیں کہ ان پروں کے سائے میں وہ زندگی گزار سکتے ہیں۔خود جناب ۔۔ انہوں نے اس جماعت کے لیے کیا نہیں کیا؟

ایم کیو ایم کے نائن زیرو پر ٹیلی فون آپریٹر تھے، ان کی ایسی کرامات پیر طریقت الطاف حسین بھائی صاحب نے دیکھیں کہ عش عش کر اٹھے اور کراچی کا ناظم انہیں بنا ڈالا۔۔آج انہوں نے اپنا پیر بھی بدل لیا اور قبلہ بھی۔۔ خیر ہمیں کیا ایم کیو ایم جنہوں نے بنائی تھی انہوں نے ہی اگر اس کا لیڈر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں دخل دینے والے، گھس بیٹھیا ہی کہلائیں گے ناں؟

دوسری جماعت عمران خان صاحب کی پی ٹی آئی ہے ، یہ جماعت انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا کر سامنے آئی اور دن بہ دن اس کے قد میں اضافہ ہوتا گیا، پھر لوگوں نے دیکھا کہ جو جماعت انتخابی دھاندلی کا رونا رو رہی تھی اس کے اپنے پارٹی الیکشن کے الیکشن ٹربیونل نے فیصلہ دیا کہ پارٹی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، جہانگیر ترین ، عبدالعلیم خان سمیت کئی راہنما اسی دھاندلی کے نتیجہ میں جیتے۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین نے فیصلہ دیا کہ دھاندلی کے نتیجہ میں ہونے والے الیکشن کالعدم قرار دیئے جائیں۔ مگر عمران خان نے انکار کردیا۔۔ اب بھلا کوئی خود سے اپنی ذاتی اے ٹی ایم مشینیں کیسے تباہ کرلے؟ پھر دوبارہ پارٹی الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن بنا مگر اس کے چیئرمین جناب تسنیم نورانی نے پارٹی چیئرمین کے دباؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن کے چیئرمین نے وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اپنے عہدہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔۔

یہ تو وہ واقعات ہیں جو ہمارے سامنے پیش آئے، میں اکبر ایس احمد کے لگائے الزامات کو نہیں دہرانا چاہتا۔ جاوید ہاشمی کے الزامات کو نہیں دہرانا چاہتا، بس اس جماعت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے اتحادی شیخ رشید احمد ہیں۔
تیسری جماعت ۔۔ جس کا نام بھی اسلامی ہے، اس کے صوبائی وزیر خزانہ کے خلاف بینک آف خیبر کے مینجنگ ڈائریکٹر کو اشتہار چھپوانا پڑا کہ یہ وزیر اپنے جلسوں کے اخراجات بھی بینک سے وصول کرتا ہے۔۔ اس پر کرپشن سے نالاں اپنے کپتان خان نے کہا کہ یہ معاملہ کرپشن کا نہیں ہے۔

تینوں جماعتوں کے سربراہان نے خطاب کیے، مگر اتفاق دیکھئے کہ سب کے ٹائم الگ الگ تھے، ایک ختم کرتا تو دوسرے کی باری ، اور دوسرے کے بعد تیسرے کی۔۔ یہ اتفاق ہے یا کوئی گارڈ تھا جو پٹری تبدیل کرتا اور گاڑیاں ٹکرانے سے بچتی رہیں۔۔ اور یہ قوم ممنون ہے کہ سارے لیڈرز کو ایک ہی دن میں سن لیا۔۔ سب کا موقف جان لیا۔۔

خیر چھوڑیئے ان غیر ضروری اور فالتو باتوں کو ۔۔ یہ کون دیکھتا ہے اس ملک میں کہ کون کہہ رہا ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے، اگر اس کی مرضی کی بات ہے پٹواریوں کے خلاف تو چاہے وہ مبشر لقمان اور حسن نثار جیسے شریف النفس اور شریف الطبع اشخاص ہی کیوں نہ کہتے ہوں وہ بالکل درست ہے کسی ثبوت کی کیا ضرورت ہے؟

لیکن اگر یہ بات گنجوں کے حق میں جاتی ہو تو پھر کہنے والی کی ۔۔۔۔۔۔۔ بیپ بیپ کی آوازیں، وہ بھی ڈھیر ساری
ویسے ہمیں بھی کیا لیڈر ملے ہیں۔۔ اپنے وزیر اعظم جب خطاب کر رہے تھے یا اپنے مصائب سنا رہے تھے تو کہنے کو دل چاہا کہ کہہ دوں۔۔ بس کر پگلے اب رلائے گا کیا۔۔ اور دوسرے اپنے رنگیلے لیڈر عمران خان۔۔ اسی لیے آج اپنے کپتان کا خطاب سن کر بہت دنوں بعد کھل کر ہنسا ہوں۔۔ کیا کیا جگتیں سنیں، کیسے کیسے شاندار لطیفے سنے کہ طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی۔۔ اپنے عمران خان صاحب کا خطاب سن کر کہنے کو دل کرتا ہے ۔۔ بس کر پگلے ۔ اب ہنسا ہنسا کے مارے گا کیا؟

سچی بات ہے کئی روز سے خطاب سن رہے ہیں مگر کسی خطاب میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔۔ عمران کا خطاب ہو تو پرویز رشید صاحب کے جواب کا انتظار نہیں کرنا پڑتا پہلے سے تیار ہوتا ہے بس واٹس ایپ ہو جاتا ہے۔۔ اپنے وزیر اعظم کا خطاب ہو تو نعیم الحق بھی دیر نہیں لگاتے جو بھی کہا گیا ہو اسے مسترد کرنے میں۔

بس آج کی خاص بات یہ ہے کہ اپنے کپتان خان نے ایک بار پھر حکومت کے خاتمہ کی نوید سنا دی ہے۔ کہتے ہیں جلد ہی وکٹ گرنے والی ہے۔۔۔
کیا کہا، یہ پرانی بات ہے اور دھرنے میں ہر گھنٹے بعد اس طرح کی نئی ڈیڈ لائن دی جاتی تھی؟۔۔ تم تو ہو ہی پٹواری۔۔۔ بیپ بیپ کی آوازیں ڈھیر ساری

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے