ایک اور مردِ حُر جاتا ہے

اس وقت میری عمر یہی کوئی پانچ یا چھ برس تھی۔ اسکول جاتے ہوئے گاؤں کا چھوٹا سا بازار بیچ میں پڑتا تھا ۔ سرور صاحب کی دکان کی دیوار پر ایک بڑا پوسٹر مجھے اس زمانے میں بہت پرکشش لگتا تھا ۔ ایک پینٹ کوٹ میں ملبوس شخص ہے ۔جس کا دایاں پاؤں کانٹے دار تار پر ہے اور وہ آگے بڑھ رہا ہے ۔ اس کے پیچھے انسانوں کا ایک جم غفیر ہے ۔ ساتھ کچھ اس طرح کے جملے ہیں کہ فلاں تم قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ یا ساری زنجیریں توڑ دو وغیرہ ۔(یہ پانچ چھ برس پرانا پوسٹرتھا)مجھے اس وقت وہ شخص ہیرو سا لگا تھا ۔

بعد میں کچھ ہوش سنبھالا تو ابو نے بتایا کہ اس شخص کا نام امان اللہ خان ہے ۔یہ کشمیر کی آزادی کا مجاہد ہے ۔ مقبول بٹ کا ساتھی ہے ۔ پھر اس کے بعد ابو اور ان کے دوستوں کی محفلوں میں امان صاحب کا ذکر سنتا رہا ۔

ابھی پچھلے ہفتے طاہرہ توقیر نے اپنی فیس بک وال پر ان کی تصاویر پوسٹ کیں جن میں وہ کافی نحیف لگ رہے تھے۔ مجھے برابر میں بیٹھے صحافی اور رفیق کار عبید اللہ عابد صاحب نے کہا کہ’’ اس شخص کے سینے میں کشمیر کے حوالے سے بہت کچھ ہو گا ۔ تم ان کا انٹرویو کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘میں کہا ذرا سنبھل جائیں تو پہلی فرصت میں ان کا انٹرویو کروں گا لیکن اب کی بار وہ ایسے بیمار ہوئے کہ پھر اٹھ نہ سکے ۔

میں صبح آفس آتے ہوئے کچھ اور لکھنے کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن فیس بک جونہی کھولی تو بشارت صدیقی کی پوسٹ نے غمزدہ کر دیا ۔یہ امان صاحب کی موت کی خبر تھی ۔

امان اللہ خان نے اپنی 84 سالہ زندگی کشمیر کی مکمل آزادی کی جد وجہد کے لیے وقف کیے رکھی۔ انہیں سرحد کے اِس پار اور اُس پار غدار کہہ کر پابند سلاسل رکھا گیا ۔ ان کی زبان بندی کی گئی مگر وہ آخر دم تک محاذ پر ڈٹے رہے ۔

مجھے افسوس رہے گا کہ میں اس عظیم حریت پسند سے مصافحہ کیوں نہ کر سکا ۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے