” تم مجھے جانتے نہیں ہو”

"تم مجھے جانتے نہیں ہو” یہ وہ جملہ ہے جو آپ کو اکثر و بیشتر سننے کو ملتا ہے۔ اس جملے کا انگریزی ترجمہ کیا جائے تو کچھ یوں بنتا ہےyou should know I am untouchable. یعنی میں کسی وزیر، مشیر،رکن پارلیمنٹ کا بھائی بیٹا یا دورپار کا رشتہ دار ہوں، کسی بیورو کریٹ سے میرے براہ راست تعلقات ہیں، میرے خاندان کا کوئی فرد میجر سے اوپر رینک کا افسر ہے، میری پولیس میں بہت جان پہچان ہے یا پھر میں ایک صحافی ہوں چاہے روز نامہ چار پائی میں ہی کام کیوں نہیں کرتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاشرے میں ہر دوسرا فراد مقدس گائے ہے۔

بات ہو رہی تھی کے تم مجھے جانتے نہیں ہو، سڑک پر راہ چلتے گاڑی ٹکرا جائے، کسی ناکے پر پولیس اہلکارکسی مشکوک شخص کو روک لے، حتی کہ کسی بڑے جرم میں بھی کوئی گرفتار کر لیا جائے تو بھی "تم مجھے جانتے نہیں ہو” کی گردان سننے کو ضرور ملتی ہے۔ اب اسکو قومی پس منظر میں دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوگا یہ تڑی اب قومی تڑی بن چکی ہے بلکہ اب تو بات سات سمندر پار تک پہنچ گئی ہے پانامہ پیپرز میں ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کا نام آنا،آف شور کمپنیوں کا مالک ہونا اور اس کے بعد وضاحت در وضاحت، خطاب در خطاب اور اخبارات میں مبینہ طور پرجھوٹے معافی نامے کو سامنے رکھا جائے تو آپکو دور سے آواز سنائی دے گی کیا” تم مجھے جانے نہیں ہو”کہ میں نواز شریف ہوں.

چلئے ماضی قریب کے چند جھروکوں میں جھانکتے ہیں کہ افتخار محمد چودھری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کی کرپشن بے نقاب ہوتی ہے،عدالت میں کیس بھی سنا جات ہے، لیکن کوئی اسکا بال بھیکا نہیں کر سکا کیونکہ اس نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ” تم مجھے جانتے نہیں ہو” کہ میں ملک کے منصف اعلی کا فرزند ارجمند ہوں۔

کچھ بات انصاف کے علمبردار کالے کوٹوں میں ملبوس کالے کرتوتوں کے مالک "ان وکلا” کی ہو جائے جو فیصل آباد میں ججز کو ان کے چمبر میں تالہ بند کردیتے ہیں، تھپڑ رسید کرتے ہیں، پولیس والوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور صحافیوں کی چھترول کرتے ہیں لیکن کبھی کسی وکیل کو سزا ہوئی؟ جواب یقینا ناں میں ہے،، کیوں کے ہر لڑائی ،ہر جھگڑے اور ہر پھڈے پر انکا بھی ایک ہی نعرہ ہوتا ہے جسکا اوپر ذکر ہو رہا ہے۔

میری اپنی برادری میں بھی کچھ ایسا ہی ہے جس میں اگر اخبارات اٹھا کر دیکھے جائیں تو آپ کو چند ہی نام دکھائی دیں گے، ٹی وی چینلز لگا لیں تو بھی ایک شہر میں گنتی کے صحافی ہوں گے، لیکن سڑک پر چلتے ہوئے دیکھ لیں ہر تیسری موٹر سایئکل اور ہر چوتھی کار پر پریس کی نمبر پلیٹ دیکھنے کو ملے گی بلکہ اب تو صحافت نےگراس روٹ لیول پر بھی کام شروع کر دیا ہے اور ایک ایک شہر میں تھوک کے حساب سے بیوروچیف اور ایڈیٹر دستیاب ہیں اور بھکاری مافیا کی طرح ہر ایک کا اپنا اپنا علاقہ ہے جس میں کسی دوسرے کو پر مارنے کی اجازت نہیں۔

مجھے اس اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ اکثریت پولیس والوں ،دکانداروں اور ٹرانسپورٹرز کو بلیک میل کرتے ہیں اور ہر دوسری فون کال میں تم مجھے جانتے نہیں ہو کی قومی تڑی کا استعمال کرنا نہیں بھولتے۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو مختلف اداروں کی انتظامیہ کو نا اہل اور کرپٹ ثابت کرنے کے لئے فرد غیر قانونی کام کرتے ہیں اور اگر پکڑ لئے جائیں تو آزادی صحافت کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لیکن یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا ؟ مقدس گائے کا احتساب کون کرے گا؟ نواز شریف ہو بینظیر ہو یا پھر آصف علی زرداری یہ تو پھر بھی کئی بار نیب اور دیگر محتسب اداروں کے شکنجوں سے گزرے اور جو بچ گئے آئندہ بھی گزرتے رہیں گے۔ جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز میں تبدیلی بھی آ جائیگی اور پانامہ کا ہنگامہ ممکن ہے کہ نواز شریف کا نہ سہی لیکن ان کے سیاسی مستقبل کے گلے کا پھندا بن جائے۔ یہ بھی ممکن ہے ڈاکٹر عاصم پورے زرداری خاندان کو اپنے انکشافات کے ذریعے اندر کرا دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس وہ اختیارات آ جائیں جو دو نمبر وکلاء ، جعلی صحافیوں، کرپٹ پولیس اہلکاروں کی دھونس ، جعل سازی اور کرپشن کو پکڑ لیں اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ان کی تڑی بھی کام نہ آئے۔ یعنی ان معاشرتی ناسوروں کا علاج موجود ہے اور اگر کوئی چاہے تو ان کا علاج کیا بھی جا سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان کا کیا جائے جو کرپشن بھی کرتے ہیں اور اپنی کرپشن چھپانے کے لئے قتل تک کرا دیتے ہیں اور جب چاہے جس کو چاہے اپنی ذاتی عناد میں اٹھا کر دہشت گرد ثابت کر دیتے ہیں اور اگر وہ اس جرم میں پکڑے بھی جائیں تو باعزت طور پر گھر بھیج دیئے جاتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ کہ ان کے جرم کا کسی کو معلوم تک نہیں اور نہ ہی کوئی ٹویٹ سامنے آتی ہے۔

ان بیماروں کا کیا علاج کیا جائے جو گھر سے ایک بیماری کے علاج کیلیے علاج گاہ کا رخ کرتے ہیں لیکن راستے میں انھیں دوسری بیماری لاحق ہو جاتی ہے اور وہ کسی اور علاج گاہ اور کسی دوسرے ڈاکٹر کی خدمات حاصل کر لیتے ہیں بلکہ کسی اور معالج کی تحویل میں چلے جاتے ہیں صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے شہر بھی بدل لیتے ہیں اور موقع ملنے پر بیرون ملک اڑان بھر لیتے ہیں اور اصل بیماری کو بھول کر خود ساختہ بیماریوں کا علاج کراتے ہوئے اپنی رنگین مزاجی سے بھر پور تصاویر اہلیان اطن کو اس عنوان کیساتھ واپس بیھجتے ہیں کہ” تم مجھے جانتے نہیں ہو”۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے