94 فیصد پاکستانیوں کا اعلان

‘ چند ‘ کا دعوی تھا کہ پاکستان میں اسلامسٹ بیانیے کو شکست ہو گئی ہے اور سیکولر لبرل پاکستان اب بنا کہ تب بنا ، میاں نوازشریف نے لبرل پاکستان کا بیان داغا تو گویا دل میں لڈو پھوٹنے لگے اور اشاروں اشاروں میں کہا جانے لگا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے۔ نئے ریاستی بیانیے اور نئے نظریے کی بات ہوئی اور دور کسی کونے کھدرے سے محسوس ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے اور سرپرستی بھی کر رہی ہے تو سرگوشیاں شور میں بدلنے لگیں۔

سرخ انقلاب یہاں کیا آتا ماسکو سے بھی چلتا بنا مگر یار لوگوں کی پرانی خواہش لبرل پاکستان کی آڑ میں پھر انگڑائیاں لینے اور چوکڑیاں بھرنے لگی۔ جملہ نما مسخرے بازیوں سے محسوس ہوتا تھا کہ گویا چاندی ہونے والی ہے، بس کچھ ہی لمحے ہیں کہ اسلام، اسلام پسندوں سمیت پابند سلاسل ہوگا اور مرزا یار سنج گلیوں میں دو دو نازنیں محبوبائوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے رقص و سرود کی محفلین سجائیں گے اور نینوں اور صراحیوں سے بیک وقت جام لنڈھائیں گے، کوئی روکنے پوچھنے والا کیا ، ناپسند کرنے والا بھی پردے میں کہیں آہیں بھرے گا اور ‘چند سب’ کے سامنے آنے کے بجائے منہ چھپاتا پھرے گا۔ مسجدوں کے مینار خاموش ہوں گے، سمع خراشی سے نجات ملے گی اور نائٹ کلب کی مسحور موسیقی کانوں میں رس گھولے گی۔ شلوار قمیضوں، ڈاڑھی اور حجاب والوں سے نجات ملے گی کہ نظر کیا دماغ پر بھی گراں گزرتے ہیں، اور چہار طرف منی سکرٹ والی مغربی حسینائوں کے جمگھٹے میں دنیا خیالی نہیں حقیقی جنت کا منظر پیش کرے گی ( آخرت اور حور کا تو یقین نہیں) ، نسیم حجازی اور ابن صفی دریا برد ہوں گے اور منٹو اور چغتائی نصاب سے کردار تک چلتے پھرتے نظر آئیں گے، محمد بن قاسم کو بیک جنبش قلم واپس عرب بھیجیں گے اور راجہ داہر کتاب سے تاریخ تک گھوڑے دوڑاتا نظر آئے گا۔ فکر مودودی کا مال روڈ پر جنازہ نکلے گا اور باچا خانی بیانیہ کراچی تا پشاور اپنے پھریریے لہرائے گا۔ قرآن و سنت ، قرارداد مقاصد اور اسلامی آئین سے نجات پائیں گے اور ‘مرضی والے’ سیکولرزم کی حکمرانی میں خود میزان سنبھالیں گے۔

حالیہ سروے نے مگر خواب و خیال کا شیشہ ایسے توڑا ہے کہ برسوں اس کی کرچیاں ‘ چند سب’ کے دل و دماغ کو لہولہان کرتی رہیں گی، دہائیوں کی محنت اکارت ہوئی، اربوں ڈالر ضائع ہوئے، میڈیائی یلغار نے ناکامی کا منہ دیکھا ، دہشت گرد اور دہشت گردی کی گردان کرکے دین فطرت کا چہرہ صافی مسخ کرنے والے نامراد ٹھہرے، اسلام کو دہشت گردی کا مذہب بتانے والے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے خون کی ہولی کھیلنے کے باوجود عامۃ الناس کو متنفر نہ کر سکے، بلکہ ان ہتکھنڈوں کے نتیجے میں جنھیں متزلزل کرنا تھا، ان کا ایمان مضبوط ہوا، یقین میں بڑھوتری ہوئی ، 2013 کے اسی پیو سروے میں شرعی نظام کے حامیوں کی تعداد 84 فیصد تھی جبکہ اب 10 فیصد کے اضافے سے یہ تعداد 94 فیصد ہے یعنی کہ پورا پاکستان۔

حقیقی ‘ ہم سب’ نے کھلا اور واضح اعلان کیا کہ کسی لبرلزم اور سیکولرزم کے گرویدہ کیا اس کے پاس سے بھی نہیں گزرنا چاہتے، پاس کیا اس کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اسلام ہی ہمارا دین ہے، قرآن ہی ہمارے لیے راہ نجات ہے، اسلامی بیانیہ ہی پاکستان کی بنیاد ہے اور وہ اسے اللہ کی رسی سمجھ کر پوری قوت سے اسے تھام کر کھڑے ہیں۔

سروے میں 94 فیصد یعنی پورے پاکستان نے بیک آواز کہا ہے کہ وہ ملک میں قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی چاہتے ہیں اور 78 فیصد کے مطابق اس کا سختی سے نفاذ بھی ہونا چاہیے۔ معلوم ہوا کہ لبرل بیانیہ کا کہیں وجود ہی نہیں ہے کہ اسے شکست ہو، شکست ہونے کے لیے تو وجود کا ہونا ضروری ہے ۔ یہاں تو پورا پاکستان اپنے ہاتھوں میں اسلام اور قرآن کا علم اٹھائے کھڑا ہے اور ‘چند سب’ کی خواہشات کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ لوگ ہیں ‘ چند ایک’ ہونے کے باوجود آئین اور جمہوریت کو ماننے سے انکاری ہیں اور اسے زبردستی قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، مگر شکست خوردگی ان کا مقدر ہے۔ یہ کل بھی ناکام تھے، آج بھی ناکام ہیں اور آئندہ بھی ناکام رہیں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے