صحافت کا نوحہ

تین مئی کو عالمی یوم آزادی صحافت زوروشورسے منایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں صحافتی تنظیمیں اس دن کی مناسبت سے ریلیاں اور سیمینار منعقد کریں گی اور اس بات کاعزم کیا جائے گا کہ آزادی اظہار پرکوئی قدغن قبول نہیں کی جائے گی بلکہ یوں کہنا چاہیے کی "مزید قدغن” قبول نہیں کی جائے گی۔ عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر پاکستان میں آزادی صحافت اور میعار صحافت پر بات ضرور ہونی چاہیے کیونکہ جس میڈیا نے پرویز مشرف کی آمریت میں عوام کو شعور بخشنے سمیت وکلا تحریک کو کامیاب بنانے میں کردار ادا کیا، مشرف کی آمریت کا مقابلہ کیا، حکومتی پابندیوں کا سامنا کیا، آج اسکا اپنا کردار مشکوک ہو چکا ہے۔ حامد میر پر حملے سے لیکر بول ٹی وہ کی بندش تک تمام چینلز اور اخبارات کا کردار ایسا رہا کہ اسے کبھی بھی قابل فخر نہیں کہا جاسکتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملک میں آنے والے بحرانوں کے دوران بھی تمام میڈیا ہاوسسزنے صحافتی اقدار اور روایت کو شدید نقصان پہنچایا۔ کئی ایک چینلز نے انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کیا تو کچھ نے بات کا بتنگڑ بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

حامد میر پر ہونے والے حملے کے بعد اگر جنگ گروپ کے موقف کوغلط تسلیم کر بھی لیا جائےتو اس کے ردعمل میں دیگر تمام ٹی وی چینلز کے کردار کو برادران یوسف کے کردار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ سبھی نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی حامی بھری اور اس کا ثبوت بھی دیا جس سے کسی کو فائدہ پہنچا یا نہیں اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم صحافت اور صحافیوں کے اتحاد کا جنازہ ضرور نکلا۔

2014 میں جب پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنے دیے تو اس وقت ایک وقت ٹی وی چینلز کے اینکرز ان دھرنوں کے سٹیج پرآکر تقریریں کرتے، حکومت وقت کو للکارتے، نعرے لگاتے اور دھرنوں کی قیادت کرنے والوں کے گن گاتے اور ان کو مسیحا اور نجات دہندہ کے القابات سے نوازتے۔ ان کی تقاریر کے اختتام پر ڈی چوک کے قریب واقع دوسرے ٹی وی چینل کے دفتر پر پتھراو شروع ہو جاتا اسے ان کی تقاریر کا ردعمل کہیں یا سازش لیکن کیا اس سے کسی سیاسی راہنما کو فائدہ پہنچ سکتا تھا؟؟ شائد نہیں۔۔۔ لیکن ان تقاریر سے کچھ صحافیوں کی زندگیاں یقینا غیر محفوظ ہو جاتی تھیں۔


بول ٹی وی نے میڈیا کے سیٹھوں کی اجارہ داری کو چیلنج کیا تو بھوکے شیر بول پر اس طرح جھپٹے کہ ملک بھر کے ہزاروں صحافی اور میڈیا ورکرز کے گھروں میں فاقوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ اس حوالے سے حکومتی کردار اگرچہ انتہائی منفی رہا لیکن کسی چینل میں یہ جرات نہ ہو سکی کہ وہ اس کردار پر انگلی اٹھا سکے کیونکہ ملی بھگت واضح تھی۔

اس وقت صحافت کا معیار یہ ہے کہ حکومتی مشینری ہو ، اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ سب اپنی اپنی مرضی کی خبریں بمعہ دستاویزات من پسند اینکرز کو فراہم بھی کرتے ہیں اور ساتھ میں بریفنگ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ عوام اس چیز سے باخبر ہوں یا نہیں لیکن صحافتی حلقے جب بھی کسی اینکر یا رپورٹر کی خبر دیکھتے ہیں تو انہیں متعلقہ خبر کے ذرائع کا علم ہو جاتا ہے۔ یوں کسی کو محنت کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی اور بریکنگ اور ایکسکلوژو کا راگ الاپنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ صرف خبر دینے کی حد تک ہی نہیں بلکہ کونسی خبر دینی ہے کونسی خبر روکنی ہے کس کو خبر کب تک منظر نامے پر رکھنا ہے اور کب اس کو منظر سے غائب کرنا ہے اسکا فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے اور میڈیا ہاوسز اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو پانامہ لیکس کے سامنے آنے کے بعد آرمی چیف کے بلا تفریق احتساب والے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے فوجی افسران کی بر طرفی پر بلے بلے کے نعرے یاد کیجیے۔

فوجی افسران کی برطرفی سے پہلے کا پانامہ کا ہنگامہ تو ابھی تک جاری ہے لیکن پانامہ لیکس کے سامنے انے کے کئی دن بعدہونے والی برطرفیوں کی خبریں منظر سے غائب ہیں،، اگر کسی میڈیا ہاوس کے پاس اپنا اختیار ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس حوالے سے اٹھنے والے والے سوالات کے جوابات لیے بغیر اس خبر کو منظر سے غائب کر دیا جاتا؟؟ یہ کیسے ممکن تھا کہ ہمارے بہادر اینکرز یہ سوال نہ اٹھاتے کہ ان افسران کو کس جرم میں ملازمت سے برطرف کیا گیا، ان کا ٹرائل کب ہوا؟ وغیرہ وغیرہ لیکن کسی اینکر، کسی میڈیا ہاوَس اور میرے سمیت کسی صحافی میں یہ سوال پوچھنے کی جراَت نہیں ہوئی اور اب کوئی ان کی برطرفی کا ذکر تک نہیں کرتا۔ رہی بات پانامہ لیکس کی تو اس میں جب تک سیاستدانوں کے نام آتے رہیں گے اس کا چرچہ بھی ہوتا رہے گا چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو جس دن کسی جنرل بے شک ریٹائرڈ ہی کیوں نہ ہو کا نام سامنے آ گیا،، پانامہ بھی قصہ ماضی بن جائیگا۔ اس لئے ریلیاں نکالنے والے ، نعرے لگانے والے اور آزادی کا رونا رونے والے جب بھی میڈیا پر پابندی کا ذکر کریں وہ اس کے ساتھ لفظ "مزید” کا اضافہ ضرور کریں۔

اور ہاں آخری نوحہ یہ ہے کہ ملک بھر کے صحافیوں کو کئی دھڑوں میں تقسیم کرکے اپنے اپنے دھڑے کی قیادت کرنے والے قائدین صحافت اپنی آخری شائع یا نشر ہونے والی خبر عوام کو دکھا کر یہ ضرور بتا دیں کہ آپ ابھی تک صحافت کے شعبے سے ہی وابستہ ہیں ورنہ لوگ آپ کو کاروباری کہنے لگیں گے۔

نوٹ۔ حکومت کی جانب سے اطلاعات تک محدود رسائی کا ذکر اس لئے نہیں کیا اس کا تذکرہ برادرم صدیق ساجد اپنے کالم میں بہترین انداز میں کر چکے ہیں۔

[pullquote]کچھ مصنف کے بارے میں۔۔۔
[/pullquote]

بشیر چوہدری صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، مختلف ٹی وی چینلز میں رپورٹنگ کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں، سیاست، پارلیمنٹ اور خارجہ امور کے شعبوں کو کور کرتے ہیں۔ آج کل چینل 24 میں نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے