"نظام”

ہم سب اپنی زندگی کسی نا کسی طریقہ کار یا نظام کے تابے گزارتے ہیں ۔ذاتی زندگی میں تو ہم خود کو آزاد چھوڑتے ہوئے”نظریہ ضرورت” والے نظام کو فالو کرتے ہیں جس کے لیے "مولویوں کے فتوی” اور "عدلیہ کے فیصلے "عین فرض نماز کی طرح میسر ہیں بھی اور باوقت ضرورت ترمیم کی قیمت کے بعد لیے بھی جا سکتے ہیں ۔۔۔
ملکی سیاسی نظام ذرا مختلف ہے بظاہر جمہوری نظام کی بقا کے لیے لڑائی آمریت سے کی جا رہی ہے اور "جمہوری جنگجو”جن سے نبرد آزما ہیں اُنھیں کے سکول میں "پلے گروپ سے لیکر گریجویشن کی تعلیم حاصل کئے ہوئے ہیں "پھر نوکری بھی اُنھیں کی کرتے رہے ہیں ۔اور بیوقوف عوام کو پاگل کرنے کے لیے "جمہوریت کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں ”
مگر پاگل عوام کو ایک لمحے کے لیے "ذرا رکنا "ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ اگر جمہوریت کے چیمپینز نے آمریت کی گود میں جنم لیا ہے تو یہ لڑائی بنتی ہے”کبھی شاگرد بھی استادوں سے جیتے ہیں ماسوائے اسکے کہ استاد خود شاگرد کو جتوا دے”
اس لیےنوراکشتی کے پیچھے مت جائیے اپنے بچوں کی روزی کمائیے!!
اور اک لمحے کو "ذرا رکئیے "اور سمجھئیے کہ معاملہ اتنا ہے کہ "جب نظام کمزور ہوتا ہے تو اعتماد اُٹھا جاتا ہے”
بس جلد استاد اور شاگردوں کا اعتماد بحال ہو گا اور پھر نظام بھی بہتر ہو جائے گا!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے