وطن کوچھوڑنا کب کسی کے لیے آسان ہوا کرتا ہے ۔جہاں انسان کا جنم ہوا ہو،بچپن کے طلسماتی ایام کودیکھا ہو ۔جوانی کے بہاریں دیکھیں ہوں۔بزرگوں کی یادیں ہوں، انکے مزارت ہوں ۔ان کوچہ و بازار کو ،ایسے دیار کو ،ایسے وطن کوچھوڑنا کب کسی کے لیے آسان ہوا کرتا ہے ۔اور پھر وطن بھی اگر مدینہ جیسا ہو۔کتنا مشکل ہوا ہو گا امام حسین ابن علی کے لیے یہ فیصلہ کرنا کہ "حسین اب مدینے میں نہیں رہیں گے”
ہاں ہاں قاریئن ! یہ انسانی جبلت ہے کہ انسان کو اپنے آبائی شہر سے ایک خاص لگاوء ہوتا ہے ۔جہاں اس نے آنکھ کھولی ہو اور ساری زندگی گزار دی ہو ۔یکدم یہ فیصلہ کرنا کہ اب وہاں سے کوچ کرنا ہے ۔اس فیصلے سے لے کر ،کوچ کر جانے تک کا ایک ایک لمحہ عجیب درد و الم کہانی ہوتا ہے ۔تاریخ انسانی میں احمد مختار صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم سا صابر کوئی کہاں ہو گا ۔مگر تاریخ کہتی ہے جس رات محبوب خدا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف سفر کیا عجیب درد کا عالم تھا ۔مڑ مڑ کر کعبہ کو دیکھتے اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔پھر عجیب لمحہ آیا ،آخر وہ مقام آ گیا جہاں سے بیت اللہ آخری بار نظر آتا ہے ،سید المرسلین نے حسرت بھری نگاہ کعبہ پر ڈالی اور بیٹھ گئے، رو کر کہا "اے کعبہ تو مجھے رو زمین پر ہر شے سے زیادہ عزیز ہے مگر کیا کروں کے تیرے باسی مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔
28رجب سنہ 60ہجری کا دن تھا کہ جب یہی وقت فرزند رسول جگر گوشہ بتول حضرت اما حسین ابن علی پر آیا۔شام کے دارلحکومت دمشق سے نئے حاکم یزید کا خط آچکا تھا ۔جس میں گورنر مدینہ ولید کے نام یہ واضح پیام تھا کہ "حسین ابن علیؓ ،عبدالرحمان ابن ابوبکرؓ ،عبداللہ ابن عمرؓ اور عبداللہ ابن زبیرؓ سے جلد از جلد بیعت لو لو اور اگر ان میں سے جو کوئی بیعت کا انکاری ہو اسکا سر کا ٹ کر دمشق بھیج دو” ۔ولید جو کہ حضرت کی عزت و احترام سے آگاہ تھا اور جانتا تھا کہ فرزند فاطمہ کبھی بھی اس بیعت کے لیے راضی نا ہوں گے۔اس نے امام عالی مقام کو تشریف آوری کی زحمت دے کر سارا معاملہ ان کے روبرو رکھ دیا۔اس سب معاملے کہ بعد امام حسین کا یہ جملہ تاریخ کے سینے پر رقم ہو گیا
"مجھ جیسا کبھی بھی اس (یزید)جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا”
یہ کہہ کر فرزند حیدر کرار نے بتا دیا کہ قیامت تک کو ئی حسین فطرت ،کسی یزید طبیعت کی اطاعت نہ کرے گا۔یہی وہ لکیر تھی جس نے حق و باطل کو جدا جدا کر دیا ۔امام دارالامارہ سے نکلنا ہی چاہتے تھے کہ مروان بن الحکم کی ایک گستاخی کے سبب ماحول کشیدہ ہوا۔نوبت ہاتھا پائی تک بھی آئی مگر امام عالی مقام کے تدبر نے ایک بہت بڑے ہنگامے کو روک لیا ۔مگر اس واقعے نے اما م کو حالات کی نزاکت کی خبر دے دی ۔آپ جانتے تھے آج کا یہ ہنگامہ ،آنے والے کشت و خون کا پیش خیمہ ہے۔مگر وارث مدینہ کو کیونکر قبول ہو سکتا تھاکہ حرمت مدینہ الرسول ،فرزند رسول ﷺکے سبب مجروح ہو ۔اسوقت آپ نے اپنی زندگی کا ایک مشکل ترین فیصلہ کیا کہ” حسین اب مدینے میں نہیں رہیں گے”
یہ فیصلہ سنتے ہی بنوہاشم کے گھروں کے دروازے کھلنے لگے۔سامان سفر تیار ہونے لگا ۔مسافروں کی فہرست مرتب ہوئی۔عجیب کرب کا عالم تھا ۔روضہ رسول ﷺ پراک عجب اداسی تھی ۔مدینہ کے باسی اس غم سے نڈھال ہوئے جاتے تھے کہ خدا جانے پھر رسول اللہ کی نشانی کو دیکھنا نصیب ہو یا نا ہو۔ یہاں صحن رسالت کا یہ عالم تھا جن لوگوں کو اذن سفر ملا وہ خوشی سے پھولے نا سما رہے تھے۔جو اذن سفر نا پا سکے انکا غم و الم دل کو چیرے دیتا تھا۔اس ملول اور پر غم فضا ء میں ایک عمر رسیدہ معظمہ کی بے چینی سب کی نگاہوں کا مرکز تھی ۔وہ خاتون ان لوگوں میں سے تھیں جن کو بعد از حسین بھی مدینہ میں رہنا تھا ۔کبھی رونے لگتیں تو کبھی خاموش ہو جاتیں ۔اک مرتبہ بے چین ہو کر کہا کوئی میرے بیٹے حسین کو بلا لائے۔امام عالی مقام سر جھکائے رسول اللہ ﷺ کے حرم اور اپنی نانی ام سلمہؓ کے حضور آئے۔جب آپ آئے تو عجب جذبات بھرا منظر تھا اور کیوں نا ہو تا بڑے ناز سے اپنے نواسے کو پالا تھا اور رسول اللہ ﷺ سے واقعہ کربلا کے متعلق سن چکی تھیں اور وہ خاک کربلا جو جبرائیلؑ رسول اللہ کو دے گئے تھے وہ بھی آپ کے پاس تھی ۔آخر نانی تھیں ،ماں جیسا رشتہ تھا ایک مرتبہ رو کر کہا حسین ! میرے بیٹے حسین اگر ہو سکے تو عراق نا جانا۔آہ ! نا جانے جب ام المومنینؓ نے یہ فقرہ کہا ہو گا ،غم کے کس طوفان نے دل کو بے چین کر دیا ہوگا ۔یہ سن کر دل حسین کا حال کیا ہوگا کوئی ادراک بھی نہیں کر سکتا ۔پھر بھی نانی کو تسلی دی اور کہا جیسے خدا کو منظور۔۔۔۔۔
شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ امام کی رخصت کے لمحات قریب تر تھے۔سب سے پہلے نانا محمد ﷺ کی قبر اطہر پر گئے ۔میں نہیں جانتا کہ نانا ،نواسے میں اس وقت کیا باتیں ہوئی ہوں گی ،ہاں مگر تاریخ بتاتی ہے کہ بتاتی ہے کہ نواسے کو نانا سے رخصت ہونے میں بڑی دیر لگ گئی ۔جب بھی قبر رسول ﷺ سے رخصت ہوتے اور آخری بار قبر اطہر کو تکتے ۔ناجانے کیا خیال آتا کہ پھر قبر اطہر کی طرف چلے جاتے ۔اور ایسا بہت بار ہوا ۔مگر پھر صبر کر کے نانا کو آخری سلام کیا ۔پھر جنت البقیع میں ماں فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ اور بھائی حسن مجتبی کی قبر کی جانب چل دئیے ۔ذرا تصور تو کیجئے اس قلق کو جو امام نے ماں کی قبر کو آخری سلام کر کے محسوس کیا ہو گا۔شاید کہا ہو
جنگل میں اپنے پیاروں کی بستی بسائے گا
اما ں حسین پھر نا مدینے میں آئے گا
آخری بار صحن خانہ میں تشریف لائے۔نانی ام سلمہؓ سے رخصت ہوئے۔ماں امالبنین(زوجہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کر م اللہ وجہہ)کو سلام کیا۔ بھائی محمد حنفیہؓ کو وصیتیں کیں۔اپنی کمسن دختر حضرت فاطمہ صغری کو آخری بار سینے سے لگا کہ خوب روئے۔
مہمل بٹھا دئیے گئے ۔اور سب کو روانگی کا حکم ہوا ۔عزہ و اقرباء سواریوں پر سوار ہونے لگے۔صحن رسول خالی ہونے لگا۔اہل مدینہ غم و حسرت کی تصویر بنے ،خانوادہ رسول کو مدینہ الرسول سے رخصت ہوتے دیکھنے لگے۔پھر ایک یوسف اپنے یعقوب سے جدا ہو رہا تھا۔امام حسرت بھری نگاہوں سے کبھی روضہ رسول کو دیکھتے ،کبھی جنت البقیع کو۔کبھی اس مسجد نبوی کو دیکھتے ،جہاں نانا نماز پڑھاتے تھے اور آپ پشت پر سوار ہو جا تے تھے۔کبھی چشم نم سے ان گلیوں کو دیکھتے جہاں روز عید نانا کے دوش پر سوار گھوماکرتے تھے ۔
ہائے اس روز کیا کیا نا یاد آیا ہو گا ۔اس روز دل حسین میں بڑی خاموشی تھی جب کہ اردگرد سے اہل مدینہ کے شور کی آواز آرہی تھی
الوداع ا ے فرزند رسولﷺ
حسین مدینے سے جا رہے ہیں