آپ فرض کریں آپ کی چار بیٹیاں اور ابھی سبھی کی عمریں چھ سال سے کم ہیں۔ آپ گھر جاتے ہیں تو یہ آپ سے چمٹ جاتی ہیں، جب تک آپ انہیں گلے سے نہیں لگاتے یہ سوتی نہیں ہیں۔ آپ سے چھوٹی چھوٹی فرمائشیں کرتی ہیں۔ کسی کو بسکٹ اچھے لگتے ہیں تو کوئی نئی گڑیا چاہتی ہے۔ کوئی بھاگ کر آپ کے کندھے پر بیٹھ جاتی ہے تو کوئی سمٹ کر آپ کی جھولی میں آ گرتی ہے۔ یہ مسکراتی ہیں تو آپ مسکرا اٹھتے ہیں، یہ روتی ہیں تو آپ افسردہ ہو جاتے ہیں۔ کبھی ان کی یہ ضد کے آج امی کے ساتھ سونا ہے اور کبھی یہ کہ ابو کے ساتھ سونا ہے۔ یہ سوتی ہیں تو آپ انہیں آہستہ سے اٹھاتے ہیں اور ان کے بستروں پر لٹا دیتے ہیں۔ انہیں رات کو ڈر لگتا ہے تو یہ اٹھ کر پھر آپ کے پاس آ جاتی ہیں۔ آپ ابھی صبح اٹھے نہیں ہیں لیکن یہ معصوم سا چہرہ لیے دوبارہ آپ سے چمٹ کر لیٹ جاتی ہیں۔
ان میں سے کسی کو نہیں پتا کہ ہمارے گھر کے حالات کیسے ہیں۔ ابو پیسے کہاں سے لاتے ہیں، امی کھانا کیسے پکاتی ہیں؟ انہی ابھی اس دنیا کی سختیوں اور مصائب کا علم ہی کیا ہے؟
ان کی تو ایک اپنی ہی دنیا ہے، جہاں یہ گم رہتی ہیں۔ انہیں تو بس یہ پتا ہے کہ بھوگ لگے تو امی ابو کو کہنا ہے، ڈر لگے تو ایسے ہی بھاگ کر امی ابو کے پاس جانا ہے، جیسے چوزے بھاگ بھاگ کے مرغی کے پاس جاتے ہیں۔ پیٹ درد ہو، پیاس ہو، ناک صاف کرنی ہو، جرابیں پہننی ہوں تو امی اور ابو کے سوا کون ہے؟
آج کوئٹہ سے جب یہ خبر آئی کہ ایک ماں نے اپنی چار بچیوں کو پانی ٹینکی میں پھینک کر خود بھی خودکُشی کی کوشش کی ہے تو سبھی کے لیے شاید یہ معمول کی خبر تھی، شاید میرے لیے بھی، لیکن یہ خبر اس وقت میرے لیے غیر معمولی نہ رہی جب میں ان چار بچیوں کی تصویریں دیکھیں۔ مجھے اسٹوری کی ایڈیٹنگ کرنا تھی، لوگوں کی دل آزاری کی وجہ سے یہ تصاویر ناقابل اشاعت تھیں سو نہیں کی گئیں لیکن یہ چند تصاویر مجھے اندر سے اداس کر گئی ہیں۔
کتنے معصوم چہرے ہیں ان سب کے، فرشتوں جیسے، ذکیہ کی عمر ابھی صرف دو برس ہے اور فرزانہ کی تین سال، ان دونوں نے فراکیں پہن رکھی ہیں، دونوں چھوٹے سے گول مٹول سے پاؤں ہیں اور ہاتھ بھی ایسے ہی نرم سے ہے۔ یہ تو اپنی امی کی ٹانگوں سے چمٹ کر بیٹھی ہوں گے۔ وہ کتنی سخت دل ماں تھی، جس نے ان دنوں کو پانی کی ٹینکی میں ڈبو دیا۔ ڈوبتے ہوئے ان دونوں کے منہ سے آکسیجن کے آخری بلبلے کسیے بے چینی سے ہوا میں آکر پھٹ رہے ہوں گے۔ ان کو حیرت تو ہوئی ہو گی کہ یہ وہی ماں ہے، جب ہمیں ڈر لگتا تھا تو یہ ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتی تھی۔ یہ ہمیں کیوں کر مار رہی ہے۔ ان کو تو ابھی موت کا بھی نہیں پتہ تھا۔ ان کو تو ابھی نہاتے ہوئے بھی پانی سے ڈر لگتا ہو گا۔ پانی کے اندر سے تو ان کی آواز بھی باہر تک نہیں آ سکتی تھی، انہوں نے نازک نازک سے ہاتھ پاؤں تو مارے ہوں گے لیکن کب تک؟ ان کے تو آنسو بھی پانی کے ساتھ مل گئے ہوں گے۔
ان دونوں کو قتل کرنے کے بعد اس سخت دل ماں نے کیسے دوسری دو بیٹوں کا اسکول سے آنے کا انتظار کیا ہو گا، وہ کونسے حالات تھےکہ ماں آخر اپنی بچیوں کو قتل کرنے پر مجبور ہو گئی؟ پروانہ کی عمر ابھی چار سال تھی اور یاسمین چھ سال کی۔ یہ دونوں تو شاید اپنی سہلیوں سے کل دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے آئی ہوں، شاید۔۔۔ ان دونوں نے تو ابھی نیلے رنگ کے قمیص اور سفید شلوار والی یونیفارم بھی نہیں اتاری تھی۔ یاسمین نے نیلے موتیوں والی ہی گلے کی گانی پہن رکھی ہے، جو پیچھے کی طرف جھک چکی ہے۔ پتہ نہیں اس نے کتنی دیر اس ایک گانی کے لیے پیسے جوڑ کر رکھے ہوں گے؟ اسٹریچر پر رکھی ہوئی ان چاروں بہنوں کی پاؤں کے انگوٹھوں کو سفید پٹی سے باندھ دیا گیا ہے۔
ان تصاویر کو دیکھ کر یقین کیجیے مجھے لگ رہا ہے کہ ان کا قاتل میں ہوں۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ وہ غریب تھے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا کہ میرے گھر والے ہر دوسرے دن گوشت کھاتے ہیں اور اسی ملک میں لوگ فاقے سے مر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بچیاں قیامت والے دن ہمارا اور اس ملک کے امراء اور حکمرانوں کا گریبان پکڑ لے گی اور پوچھیں گی کہ تم نے اپنے کتوں کو تو ایئرکٹشنڈ کمروں میں رکھا لیکن ان کے لیے ایک وقت کا کھانا بھی نہ چھوڑا؟ یہ ضرور ان لوگوں سے سوال کریں گی، جن کی تجوریاں نوٹوں سے بھری ہوئی ہیں اور اور جن کا سرمایہ سوئٹزر لینڈ، پانامہ اور امریکی بینکوں میں پڑا ہوا ہے۔ آخر ان چار بچیوں کا کیا قصور تھا؟ ذکیہ نے تو ابھی بولنا بھی نہیں سیکھا ہوگا۔ اس بیچاری کو تو ابھی امی کے علاوہ کوئی لفظ بھی نہیں آتا ہو گا۔
مجھے خوف ہے کہ کہیں ان لڑکیوں کے والد نے اپنی بیوی کو یہ طعنہ نہ دیا ہو کہ تم تو جنتی ہی بیٹیاں ہو، میں سوچ رہا ہوں اور کانپ رہا ہوں، میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں لوگ کب بیٹیوں سے محبت کرنا سیکھیں گے؟ کب وہ دن آئے گا، جب بیٹیاں پیدا ہوں گی تو لوگ جہیز کی فکر نہیں کیا کریں گے۔ کب آئیں گے وہ دن؟ کب ایسے دن ختم ہوں گے جب غریب والدین راتوں کو امراء کے گھروں پر جانا بند کریں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ ہماری بیٹی کی شادی ہے اور جہیز کے لیے آپ کی مدد درکار ہے۔ آخر کب ایسے امراء اجتماعی شادیوں کا ڈرامہ بند کریں گےاور اپنی مشہوری کے بغیر کسی کی بیٹی کی شادی کرنے کو ترجیح دیں گے؟
آپ جتنے بھی بے حس ہو جائیں، کچھ واقعات، واقعات نہیں ہوتے اور کچھ خبریں صرف خبریں نہیں رہتیں بلکہ آپ کو اندر سے چیر کر اور ہلا کر رکھ دیتی ہیں، میں آج مرتبہ چپکے سے کمرے سے باہر نکل چکا ہوں اور آنسو صاف کر چکا ہوں لیکن یہ معصوم سی بچیاں پھر سے میرے سامنے آ کر کھیلنا شروع کر دیتی ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتی ہیں کہ قصور وار تم ہو۔۔۔۔۔۔۔