ہدایت کار انجم شہزاد کی پہلی فلم ماہ میر برصغیر کے عظیم شاعر میر تقی میر کی شاعری اور ان کی زندگی پر مبنی واقعات سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے۔اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انجم اس کاوش میں کافی حد کامیاب رہے ہیں۔
فلم کا مرکزی کردار ایک پر جوش اور نوجوان ادبی نقاد جمال (فہد مصطفیٰ) ہے جومحفلوں میں بیٹھ کر موجودہ اور پچھلے ادب کی دھجیاں بکھیرتا رہتا ہے۔ وہ ایک شاعر بھی ہے جس کی نظمیں اچھی ہونے کے باوجود شائع نہیں ہوپاتیں کیونکہ اس کا کھرا رویہ اکثر پبلشرز کو ناراض کردیتا ہے۔ اور تو اور جدید دور کے شعرا پر تنقیدکی وجہ سے اخبار کے ادبی صفحے پر اس کا کالم بھی شائع ہونا بند ہوجاتا ہے۔
جمال کا ایک عشق بھی ہے۔ وہ ایک دوشیزہ (ایمان علی) کی پہلی جھلک دیکھتے ہی اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتاہے اوراس کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
زمانے کے پیچ و خم، تنہائی اور اپنے عشق کو پانے کی چاہ میں جمال پر ایک دیوانگی سی طاری ہوجاتی ہے۔ اس ہی دیوانگی اور اضطرابی کیفیت کے دوران مشہور نقاد اور شاعر ڈاکٹر کلیم (منظر صہبائی) نوجوان شعرا کا کلام ایک بڑی پبلیکیشن میں شائع کرنے کی غرض سے جمال کے گھر آتے ہیں اور ساتھ ہی جمال کو میرتقی میر کی زندگی پرلکھی اپنی کتاب بھی دے جاتے ہیں۔
کتاب پڑھنے کے دوران جمال کو اندازہ ہوتا ہے کہ میر تقی میر اوراس کی زندگی میں کتنی مماثلت ہے۔ میر نے بھی دربار کی قصیدہ سرائی کے بجائے گلی محلوں میں اپنا کلام پڑھنے کو ترجیح دی تھی اور اس ہی وجہ سے اپنی محبت، محل کی گائکہ ماہتاب بیگم (ایمان علی) کو بھی کھودیا اور اپنی یوانگی کو گلے لگائے رکھا.
کتاب ختم کرتے کرتے جمال پر بھی وہی وحشت طاری ہوجاتی جو میر تقی میر کی زندگی اور شاعری کا حصہ تھی۔وہ اس کتاب اور اپنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات میں الجھ کر رہ جاتاہے اور اس کی شاعری میں بھی میر کی وحشت کی جھلک نظر آنے لگتی ہے۔
فلم کا ایک بڑا حصہ میر کی شاعری پر مشتمل ہے خاص طور پر فلم کی شروع اور آخر میں پس پردہ موسیقی کے ساتھ میر کے اشعار کا پڑھنا اس فلم کی ڈرامائیت میں مزید اضافہ کررہا ہے۔
فلم کی ہدایت بہترین ہیں اور مصنف جو کہنا چاہتا تھا ہدایت کار نے اس کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ خاص طور پر میر کی اردو شاعری سے والہانہ محبت اور پورے چاند کی ویرانی میں کچھ تلاش کرنے کی چاہ کو نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے سوائے اس کے کہ چاند کو انتہائی بڑا کرکے دکھانے اور اس کو زمین پر لانےسے اس کی رومانویت میں کمی محسوس ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
فلم کے ہدایتکار انجم شہزاد اس سے قبل ٹیلیویژن ڈراموں کی ہدایات دیتے رہے ہیں۔فلم کی کہانی معروف مصنف سرمد صہبائی نےتحریر کی ہے۔ می رقصم کمپنی کی پروڈکشن میں تیار ہونے والی اس فلم کے ڈسٹری بیوٹرز ہم فلمز ہیں۔
فہد مصظفیٰ نے فلم میں بہترین اداکاری کی ہے اور میرتقی میر اور جمال کے کرداروں کو ایک ساتھ بہت خوبی سے نبھا کر ثابت کیا ہے کہ وہ ایک اچھے فلمی اداکار بھی ہیں۔ ایمان علی نے خوبصورت نظر آنے کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی خوب جم کر کی ہے۔ دیگر اداکاروں صنم سعید، منظر صہابئی، راشد فارقی، اور ہما نواب نے بھی اپنے مختصر کرداروں کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔
فلم کی موسیقی بہت پراثر ہے اور کہانی کی بنت میں موزوں طور پر شامل ہے۔ موسیقار شاہی حسن نے شفقت امانت علی، احمد جہانزیب اور دیگر گلوگاروں کی آوازوں کے ساتھ فلم کی موسیقی ترتیب دی ہے ۔
ہدایت کار انجم شہزاد کا کہنا ہے کہ معروف شخصیات اورسنجیدہ موضوعات پر مبنی ماہ میر، منٹو، اور مور جیسی فلمیں بنانے سے ہم فلم کی صنف میں نئی جہت پیدا کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی فلموں کا تجربہ ابھی تک بھارت میں بھی نہیں ہوا ہے۔
بہر حال ماہ میر اردو شاعری کے شوقین اور میر کے چاہنے والوں کے لیے پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک خوبصورت تحفہ ہے۔