روہنگیا کا مسئلہ

امتیاز احمد وریاہ

آئی بی سی اردو ،اسلام آباد

pigeons

امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ”اگر میں روہنگیا ہوتا تو وہیں رہنا پسند کرتا جہاں میں پیدا ہواتھا لیکن میں اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتا کہ آیا میری حکومت میرا تحفظ کررہی ہے اور لوگ مجھ سے منصفانہ سلوک کررہے ہیں۔اس لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ جمہوری انتقال اقتدار کے حصے کے طور پر روہنگیا کے ساتھ سلوک کو ایک سنجیدہ ایشو سمجھا جائے”۔ان خیالات کے باوجود وہ اتنے بے بس ہیں کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر بدھ مت انتہا پسندوں کے مظالم نہیں رکوا سکتے۔کسی اور امریکی کی بھی رگِ حمیت نہیں پھڑکی کہ وہ بدھ مت حکومت پر پابندیاں لگوانے کے لیے کانگریس میں کوئی بل ہی پیش کردے۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی قریباً تیرہ لاکھ ہے ۔میانمار کے بدھ مت ان سے ایک عرصے سے انسانیت سوز سلوک کررہے ہیں اور حکومت انھیں شہریت سمیت ان کے بنیادی حقوق دینے سے انکار کرتی چلی آرہی ہے۔ حال ہی میں قریباً ساڑھے تین ہزار روہنگیا مسلمان پُرخطر سمندری سفر کرکے بنگلہ دیش سے تھائی لینڈ ، ملائشیا اور انڈونیشیا پہنچے ہیں۔ان کے علاوہ اس وقت ہزاروں روہنگیا مسلمان کشتیوں پر سوار بے یارومدد گار سمندر میں موجود ہیں اور کوئی ملک انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔

میانمار میں زیادہ تر روہنگیا مسلمان شمال مغربی ریاست اراکان (راکھین) میں آباد ہیں لیکن 2012ء میں مسلم کش فسادات کے بعد سے ہزاروں کی تعداد میں عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ان فسادات میں بدھ مت بلوائیوں نے روہنگیا مسلمانوں کے مکانوں کو نذر آتش کردیا تھا اور جن دیہات میں وہ اقلیت میں تھے ،وہاں سے انھیں نکال باہر کیا تھا۔

میانمار روہنگیا مسلمانوں کو ایک الگ نسلی اقلیت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے بلکہ انھیں بنگالی قراردیتا ہے اور 1982ء میں نافذ کیے گئے شہریت کے متنازعہ قانون کے تحت انھیں میانمار کی شہریت سے محروم کردیا گیا تھا ۔اس کا اصرار ہے کہ وہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں ان کی نقل وحرکت پر پابندیاں عاید ہیں۔انھِیں ملازمتیں نہیں دی جاتی ہیں اور شہری خدمات بھی مہیا نہیں کی جاتی ہیں۔اس صورت حال کے پیش نظر ہرسال ہزاروں روہنگیا مسلمان اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر سمندر کا خطرناک سفر کرتے ہوئے جنوب میں واقع مسلم ممالک ملائشیا اور انڈونیشیا کا رُخ کرتے اور وہاں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یادرہے کہ میانمار میں کوئی تین عشرے کے بعد سنہ 2014ء میں پہلی مردم شماری ہوئی تھی لیکن اس میں حکام نے مسلمانوں کو روہنگیا کے طور پر شناخت دینے سے انکار کردیا تھا۔ملک کی اکثریتی بدھ آبادی نے روہنگیا مسلمانوں پر مزید سخت پابندیاں عاید کرنے کے لیے مہم چلائی تھی۔اس کے بعد سے انتہا پسندوں نے ملک کی تمام مسلم آبادی پر مظالم ڈھانے کا سلسلہ تیز کردیا ہے لیکن ان مظالم کے ردعمل میں حزب اختلاف کی لیڈر نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوکائی سمیت سیاسی لیڈروں نے انتہائی سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے اور انھوں نے اپنے ہم مذہبوں کے مظالم کے خلاف کوئی توانا آواز نہیں اٹھائی ہے۔

آنگ سان سوکائی کی جماعت نومبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے گی۔ان انتخابات کو صدر اوباما نے ملک میں جمہوریت کے قیام کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا ہے لیکن انھوں نے گذشتہ سال نومبر میں میانمار کے دورے کے موقع پر خبردار کیا تھا کہ ملک میں کی جانے والی اصلاحات کسی بھی طرح مکمل نہیں ہیں۔اس ضمن میں انھوں نے اظہار رائے کی آزادی پر قدغنوں ،ملک میں جاری تنازعات اور اقلیتی گروپوں خاص طور پر رو ہنگیا مسلمانوں سے ناروا سلوک کا حوالہ دیا تھا۔

میانمار کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے روہنگیا مسلمانوں اور بدھ مت انتہا پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ماضی میں بدھ متوں کو میانمار کی سکیورٹی فورسز کی حمایت حاصل رہی ہے۔2012ء میں انھوں نے مسلم اکثریتی مغربی ریاست اراکان میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور ان کے مکانوں ،دکانوں اور دیگر املاک کو نذرآتش کردیا تھا۔

اقوام متحدہ نے تب ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس ریاست میں نسلی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر خونریز جھڑپوں کے نتیجے میں اٹھائیس ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے تھے۔ان میں ستانوے فی صد سے زیادہ روہنگیا مسلمان تھے۔اس سے قبل جون 2012ء میں پچھہتر ہزار سے زیادہ مسلمان کو بے گھر کرکے عارضی کیمپوں میں دھکیل دیا گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے