پاکستان کے نظامِ انصاف کے لیے ایک شرمناک دن

قدوس سید

آئی بی سی اردو ،لاہور

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے آفتاب پر 1992 میں لاہور میں ایک خاتون سمیت تین افراد کو قتل کرنے کا الزام تھا۔لاہور میں جیل کے حکام کا کہنا ہے کہ آفتاب بہادر کو بدھ کو علی الصبح تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔

جس وقت انھیں سزائے موت سنائی گئی تھی، ان کی عمر 15 برس تھی، تاہم اس وقت تک قانوناً اس عمر میں موت کی سزا دی جا سکتی تھی۔ سنہ 2000 میں پاکستان میں سزائے موت دینے کے لیے کم از کم عمر 18 برس کر دی گئی تھی۔

مسیحی

حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ریپریو نے آفتاب بہادر کو سزائے موت دیے جانے کی مذمت کی ہے۔ تنظیم کی ڈائریکٹر مایا فوا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ پاکستان کے نظامِ انصاف کے لیے ایک شرمناک دن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آفتاب مسیح کے ساتھ ہر معاملے میں ناانصافی ہوئی۔ ریپریو کا کہنا ہے کہ آفتاب کو دو عینی شاہدین کی گواہی پر موت کی سزا سنائی گئی لیکن وہ دونوں گواہان بعد میں اپنے بیان سے مُکر گئے تھے اور کہا تھا کہ ان سے یہ بیان زبردستی دلوایا گیا تھا۔ ریپریو کے اس بیان کی پاکستان کی اہم شخصیات نے مذمت کی ہے اور اسے ملکی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے ۔

پاکستان میں پھانسی کی سزاؤں پر عائد غیر اعلانیہ پابندی دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے کے بعد ہٹا لی گئی تھی۔ابتدائی طور پر صرف دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کی سزا پر عمل درآمد شروع ہوا تھا تاہم بعدازاں اس حکم کو تمام مقدمات میں یہ سزا پانے والوں پر لاگو کر دیا گیا تھا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ملک میں سال کے پہلے پانچ ماہ میں 135 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ جس رفتار سے پاکستان میں پھانسی کی سزاؤں پر عمل ہو رہا ہے جلد ہی پاکستان ان ملکوں میں شامل ہو جائے گا جو لوگوں کی جان لینے کے سب سے زیادہ درپے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے