بنگال کی موجوں میں پیدا ہونے والے اضطراب سے یونہی سرسری سا نہیں گزرا جاسکتا ۔
نماز عید کی سیکیورٹی پر تعینات اھلکاروں پہ حملہ ہو ، سیکیولرز و ملحد بلاگرز کے قتل کی وارداتیں ہوں یا پھر ڈھاکہ کے انتہائی پوش علاقے میں قائم ریستوران میں کی گئی خوفناک کاروائی ، جسمیں غیر ملکی مغویوں کے سر قلم کئیے گئے ۔۔۔ ان سب کے تانے بانے ایک ہی جگہ جاکر ملتے رھے ہیں اب تک کئے گئے ان تمام حملوں کی ذمہ واری دولت اسلامیہ یا القاعدہ قبول کرتی آئی ہے ۔۔۔
چلیں جی یہ تو ایسے معاملات کا صرف ایک پہلو ہے ، لیکن اگر دوسرا رخ سامنے رکھیں گے تو کئی بھیانک انکشافات سر اٹھاۓ کھڑے ہیں جس میں سب سے بڑا تو یہی ھیکہ ڈھاکہ حملے میں ملوث نوجوان نہ صرف بنگال کے اعلی طبقے کے چشم و چراغ تھے بلکہ ایک نوجوان کا باپ حسینہ واجد کے انتہائی قریبی احباب میں سے ھے ، دلچسپ امر یہ ھیکہ تمام نوجوان اعلی تعلیم یافتہ مغربی طرز زندگی کو پسند کرنے والے اور سوشل میڈیا پہ عام طلبہ کی طرح مستعد تھے ، لیکن یہ تمام کب کیسے کہاں تبدیل ہوئے اس بارے میں ٹھوس معلومات کا فقدان ھے ۔۔۔
بنگلہ دیش پر ھندی اثر و رسوخ ڈھکا چھپا نہیں ، قیام پاکستان کے پہلے سے ہی ھندو اساتذہ شعراء اور دانشور وہاں جڑیں پکڑ چکے تھے انکے زیر سایہ ایسے لاتعداد شاگرد نکلے جنہوں نے سیکیولر ازم ، الحاد، قوم پرستی اور پاکستان دشمنی کی فصل کو پروان چڑھانے میں اپنا مکروہ کردار ادا کیا ، اسکا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو صرف بنگالی قوم پرستوں اور ھندی چالوں کو قرار دیکر بری الذمہ ہو جائیں مقصد صرف اس پہلو کی جانب اشارہ ہے ، یہ ممکن ہی نہیں کہ مغربی پاکستان کی سول و ملٹری اشرافیہ اور اقتدار میں موجود سیاست دانوں کو صاف چٹ دیجائے کہ وہ معصوم تھے ، بلاشبہ انکے حقارت و نفرت آمیز غیر انسانی رویوں کی وجہ سے بنگالی مزید مشتعل ہوئے اور ملک دولخت ہوا ۔۔۔
پاکستان سے بنگالیوں کی جدائی کے بعد قوم پرستی کا زھر عوام کے اذھان میں مزید انڈیلا گیا لیکن یہ طرفہ تماشا اور بڑا ہی ستم ظریفی پہ مبنی سنگین لطیفہ ھیکہ قوم پرستی کے جوھڑ سے مذھبی انتہا پسندی برآمد ہوئی جس نے بنگال کے سماج کو ھلاکر رکھ دیا ہے ۔۔۔
جو کچھ گزشتہ عرصے میں وہاں ہوا ، اسکا تو بنگالی دانشوروں نے سوچا بھی نا تھا معاملے کا مزید بھیانک پہلو یہ ھے کہ انتہا پسندی کا علم اٹھانے والے حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو مذھب بیزار بھی ہیں ۔۔۔
یہاں یہ امر دلچسپ ہوگا کہ گزشتہ دنوں ایک ملحد بلاگر کے قتل میں ملوث جس نوجوان کا گرفتار کیا گیا تھا اسکا تنظیمی تعلق تو القاعدہ سے تھا ہی مگر وہ ایک وفاقی وزیر کا سگا بھتیجا بھی نکلا ، اس حملے کے حوالے سے دعوی کیا گیا تھا کہ حملہ آور جماعت اسلامی کے طلبہ بازو سے وابستہ ہیں لیکن جب حقائق سامنے آئے تو سرکار کو چپ لگ گئی ،لگتا ھیکہ یہی امر قانع ھے ورنہ حسینہ واجد کی متعصب حکومت ان سارے معاملات کو پاکستان سے جوڑ سکتی تھی مگر کیا کیجئے کہ اس بار شواھد اتنے ہولناک ہیں کہ حسینہ واجد پریشان ہیں ۔۔۔
یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ بنگال کا سرکاری بیانیہ کبھی جہادی نہیں رھا ، حکومت نے ہمیشہ قوم پرستی و سیکیولر ازم کی ترویج و اشاعت کی لیکن اسکے باوجود یہ سب کچھ ہونا خطرے کی علامت ہے ۔۔۔۔
مصر تا بنگال یکساں معاملہ یہ ھے کہ جہاں جہاں جمہوری اسلامی قوتوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا وہاں یقینی طور پہ کچھ ایسے گروہ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے جمہوری طرز فکر کو خیر باد کہا اور جہادی گروپوں میں شمولیت اختیار کی ، لیکن اس کے بعد جو کاروائیاں کی گئیں اس سے سب ہی کو بلا تخصیص نقصان پہنچا اور یہ سلسلہ دراز تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔۔
کرنے کا کام تو یہ تھا کہ حسینہ واجد کی سرکار ،اسلام پسندوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کرتیں لیکن انکے سینے میں دبی انتقام کی آگ سرد ہوکے ہی نہیں دے رہی ، اور سلسلہ یونہی رھا تو اسکے شعلے ھند کو بھی لپیٹ میں لے سکتے ہیں جسکی طویل سرحد بنگال سے متصل اور بالکل پورس ھے ۔۔۔۔
قارئین ، یہ بھی پیش نظر رھے کہ بنگال میں حملہ کرنے والے القاعدہ و دولت اسلامیہ نے اپنی کاروائیوں کو کبھی بھی جماعت اسلامی کی قیادت کو ملنے والی پھانسیوں سے نہیں جوڑا اور نہ ہی ان اقدامات کا انتقام قرار دیا ھے بلکہ انکا اپنا ہی منہج و ایجنڈا ھے جو کہ جمہوری اسلامی جماعتوں کے اجتہاد سے ٹکراتا ھے ۔۔۔
یہ بھی ممکن نہیں کہ بنگال کا اضطراب پڑوسی ھند میں محسوس نا ہو ، یہی وجہ ھیکہ ھندی ریاست کے بڑے اس نئے خطرے کے تدارک کے لئے سر جوڑے بیٹھے ہیں کیونکہ ھند سے متعدد مسلمان نوجوانوں کی دولت اسلامیہ میں شمولیت کے آثار ملے ہیں یہاں تک کے القاعدہ کے برصغیر چیپٹر کے سربراہ عاصم عمر کا تعلق بھی ھندی گجرات سے ہے اور وہ بھارتی شہری ہیں ۔۔۔۔
پاکستان کے لئے اطمینان بخش صورتحال یہ ھیکہ ھندی و بنگالی ان کاروائیوں کے لئیے اس پہ الزامات نہیں لگا سکتے ایک آدھ ھندی اخبار نے دھول اڑانے کی کوشش کی لیکن اسکا جواب سرکاری سطح پہ بنگلا دیش نے ہی دیدیا۔۔۔۔
بنگال میں جدید رجحانات رکھنے والے نوجوانوں کی دولت اسلامیہ میں شمولیت نے کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں بنگلادیش کی سول و ملٹری اشرافیہ اس نئی تبدیلی پہ بہت زیادہ خوفزدہ ھے کیونکہ شدت پسندی کی لہر باھر سے نہیں ، اندر سے پھوٹی ہے اور اس میں عوامی لیگ جیسی قوم پرست و سیکیولر جماعت کے اعلی عہدیداروں کے گھروں کے بچے شامل ہیں ، اس صورتحال سے فی الحال نمٹنے کی مار دھاڑ کے سوا انکے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں اور یہ تو سامنے کی بات ھیکہ تشدد سے محض تشدد ہی جنم لیتا ھے، باقی رھا قوم پرستی کا سرکاری بیانیہ فی الحال تو اسے خلیج بنگال میں غرقاب ہوتے ملاحظہ کیجئے ابھی کا منظر یہی ھے جو دیکھنے لائق بھی ہے اور اپنے اندر عبرت بھی رکھتا ہے