افغانستان میں بےامنی اور پاکستان؟

ایک بہت ہی غلط فلسفہ ہمارے دماغ میں افغانستان کے حوالے سے بیٹھا دیا گیا ہے کہ ” افغانستان کی بدامنی کا ذمےدار پاکستان ہے کیوں کہ اس نے سوویت جنگ میں طالبان تیار کئے ” . پاکستان میں موجود کچھ لوگ بھی پوری تندہی سے اس فلسفے کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ نئی افغان نسل بھی اسی فلسفے کو پڑھ کر بڑی ہورہی ہے ..
سب سے بڑا جھوٹ تو اس فلسفے میں یہ جملہ ہے کہ
” پاکستان نے افغانستان میں جنگ کی اور پختون کو اسلحہ دیا ”
جناب محترم کاش یہ کہنے سے قبل اگر آپ افغان کی تاریخ پڑھ لیتے یا پاکستان کے قبائلی پٹی کی ہی تاریخ پڑھ لیتے تو آپکو معلوم ہوتا کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح پیدا بھی نہیں ہوئے تھے . جب انگریز ہندوستان میں داخل بھی نہ ہوا تھا . یہ افغان اس سے بھی قبل ہتھیار سے محبت کرتے آئے ہیں اور یہ آگے بھی کرتے رہیں گے آپ چاہ کر بھی انکی فطرت نہیں بدل سکتے .
*آپ کا دوسرا اعتراض کہ پاکستان نے افغانستان میں روس اور امریکی جنگ میں افرادی قوت مہیا کی . پاکستان کو افغانستان میں اس طرح کی مداخلت کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا . پاکستان نے پختونوں کو لڑائی پر اکسایا وغیرہ وغیرہ ..
محترم جناب یہاں
آپ ڈنڈی مار گئے ہیں
١٩٢١ میں جب روس اور افغانستان کے حکمران امان الله خان کے درمیان دوستی کے ” تاریخی ” معاہدہ پر دستخط ہوئے تھے تو امان الله نے افغانستان کو جدیدیت کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کی کیوں کہ بے تحاشہ پیسہ اور فوجی مدد روس کی جانب سے مل رہی تھی . اور پھر جب امان الله نے مخلوط تعلیمی نظام قائم کرنے کے بعد تیزی سے ننگ معاشرہ ترتیب دینا شروع کیا تو ” افغانستان” کے ” قدامت پسند” پختونوں نے اول مزاحمت اور بعد میں باقاعدہ بغاوت شروع کی . امان الله پختونوں کی اس بغاوت کا جواب نہ دے پایا اور ملک سے فرار ہوگیا جسکے بعد بچہ ثکاؤ اور پھر مالک خان اور پھر جرگہ کے فیصلے بعد نادر خان افغانستان کا بادشاہ بنا واضح رہے کہ ١٩٢٠ میں شاید پاکستان کا تصور بھی ٹھیک سے واضح نہ ہوا تھا لہٰذا ” علامہ اقبال اور مولانا مودودی ” پر آپ پختونوں کو بھڑکانے کا الزام بھی نہیں دھر سکتے ..
یہ تو تھی پختونوں کی وہ پہلی بغاوت جو روس کی افغان حکمرانوں کے ساتھ ہونے والی دوستی سے ہی شروع ہو چکی تھی .
* پھر اپ نے پاکستانی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کھا کہ انھوں نے افغانستان میں دراندازی کی ..
اگر آپ حقائق سے آگاہ ہوتے تو یقیناً آپ لکھتے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی افغانستان تمام سرحدی معاہدوں سے منحرف ہوگیا تھا اور پختونستان کا شوشہ کھڑا کیا پاکستان کو بنے ایک ماہ بھی نہ ہوا تھا کہ افغانستان نے دیدہ دلیری سے نا صرف پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ قبائلی پٹاور خیبر پختون خواہ میں سوویت یونین کے حامیوں کا ٹولا بنانا شروع کیا جنہیں تمام امداد افغانستان کے راستے دی جاتی تھی اور انکا مقصد پختونوں کو قوم پرستی کے نام پر پاکستان سے منحرف کرنا تھا . اسکے علاوہ افغانستان ڈاکٹر نجیب الله کے دور تک پاکستان کے کس کس ” مہان سیاستدان” کو چارہ ڈالتا رہا ہے یہ آپ جمعہ خان صوفی کی کتاب ” فریب ناتمام” میں پڑھ سکتے ہیں . واضح ہو کہ جمعہ خان صوفی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی بندہ نہیں ہے بلکہ عبدالولی خان اور اجمل خٹک کا قریبی ساتھ اور افغان حکمران داکترنجیب الله کا قریبی دوست رہا ہے جب کہ سوویت یونین میں باقاعدہ تربیت حاصل کیا ہوا کٹر قوم پرست ” کامریڈ” ہے . جس نے تمام خدائی خدمتگاروں کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا ہے کس نے پختون کا خون کس طرح بیچا…
* اب آتے ہیں اس اعتراض کی جانب جس کی رو سے سوویت جنگ میں پاکستان کے کردار پر کچھ لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں..
محترم جناب ، آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ سوویت جنگ کی ابتداء تب ہی ہوگی تھی جب سردرداود خان کے اہلخانہ کو قتل کر کے وہاں کمیونسٹوں نے حکومت پر قبضہ کیا کمیونسٹوں کے برسراقتدار آنے اور ان کی سوشلسٹ پالیسیوں کے جواب میں اسلامی ذہن رکھنے والی قوتیں بھی متحرک اور منظم ہونے لگیں ۔ انقلاب مخالف افغان پاکستان ، یورپ اور امریکا کا رخ کرکے اپنے آپ کو مزاحمت کے لیے تیار کرنے لگے ۔ دوسری طرف کمیونسٹوں نے افغان عوام کے مزاج سے غیرموافق ، غیراسلامی اور آزادخیال پالیسیوں کو اپنائے رکھا جن کی وجہ سے عوام بلخسوس کی صفوں سے بھی حکومت کے خلاف اور مجاہدین کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ پی ڈی پی اے کی صورت میں اپنے ہم خیالوں کے اقتدار سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سوویت یونین نے افغانستان کے اقتصادی، سیاسی اور فوجی معاملات میں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ملوث کرنے کی کوشش جاری رکھی ۔ دسمبر ۷۸ء میں افغانستان اور سوویت یونین کے مابین ایک اور معاہدہ طے پایا جس میں قرارپایا کہ کابل حکومت بوقت ضرورت ماسکو سے فوج بلا سکتی ہے ۔ ستمبر ۱۹۷۹ء میں وزیراعظم اور وزیردفاع حفیظ اللہ امین نے نورمحمد ترکئی کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ حفیظ اللہ امین افغانستان پر اپنی گرفت کو مضبوط نہ کرسکے اوران کی حکومت کے عدم استحکام کو بہانہ بنا کر "کمیونسٹ حکومت کی بقا” کے لیے ، دسمبر ۱۹۷۹ء میں سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔ حفیظ اللہ امین کو قتل کر دیا گیا اور ان کی جگہ ماسکو میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے پرچم دھڑے کے سربراہ ببرک کارمل کو واپس بلا کر تخت کابل پر بٹھا دیا گیا۔
اور جناب آپکی اطلاع کے لئے یہ بھن عرض ہے کہ پروفیسر ربانی ، احمد شاہ مسعود ، گلبدین حکمت یار وغیرہ جنرل زیا نہیں بلکہ ” بھٹو ” کے زمانے میں پہلی بار پاکستان آئے تھے اور تب ذولفقار علی بھٹو نے انہیں مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا پر قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جب سوویت یونین نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تب پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی لہٰذا پہلے سے تے پالیسی کےتحت افغان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کی گئی کیوں کہ یہی سوویت یونین ٧٠ کی دہائی میں افغانستان کے ساتھ مل کر بلوچستان اور پختونستان آزادی کی تحریک چلواتا رہا تھا ، ہم ایک طاقتور دشمن کو اپنی سرحد کے قریب کیسے رخ سکتے تھے جب کہ پہلے ہی ہماری مشرقی سرحد پر ہمارا دشمن بیٹھا ہے . اگر مغربی سرحد جو کہ انتہائی طویل اور دشوار گزار ہے وہاں بھی دشمن پہنچ جاتا تو پاکستان کی سالمیت کو سخت ترین خطرہ تھا . ٹھیک انہی دنوں جے سندھ تحریک بھی سر اٹھانے لگی تھی …
اس دور کا اگر لیٹریچر پڑھنے کا آپکو اتفاق ہو یا کوئی قبائلی پختون جسنےوھ دور جانی کی حالت میں دیکھا ہو وہ میسر ہو تو ذرا پوچھیئے گا کہ پختون لوگوں کے اس جنگ میں کیا تاثرات تھے ؟
پاکستان چاہ کر بھی انہیں جنگ میں کودنے سے نہ روک پاتا لہٰذا پاکستان نے انکی بھرپور سرپرستی کی اور اس میں صرف پختون نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کی پوری بیلٹ شریک تھی جب کہ پوٹھوار ریجن سے تعلق رکھنےوالے پنجابیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شریک تھی ، امریکہ کو بھی سوویت سے خطرہ تھا لہٰذا اس نے اس حتمی جنگ میں پاکستان اور مجاہدین کا ساتھ دیا . ہمارے لئے یہ ہماری بقا کی جنگ تھی پر امریکہ کو اپنا مضبوط دشمن مارنا تھا ، اغراض و مقاصد سب پر ہی واضح تھے آپ کیوں انجان بن رہے ہیں ؟
* آپ نے اعتراض کیا کہ پاکستان کے ” سرکاری علماء ” نے جہادکے فتوے دیے
محترم جناب آپ شاید افغان جنگ سے بلکل ہی نابلد ہیں ، پاکستان نے صرف گلبدین حکمت یار کی تنظیم اسلامی کو سپورٹ کیا تھا ، جب کہ سوویت کے خلاف جنگ میں افغانستان میں موجود تقریباً فرقہ اور مسلک کی جہادی تنظیمیں شامل تھیں .
صوفی سلسلۂ نقشبندی کے رہنما پیر صبغت اللہ مجددی نے ۱۹۸۰ ء میں جبہ نجات ملی (دی افغانستان نیشنل لبریشن فرنٹ) کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کی .
پیر سید احمد گیلانی ، جن کے خاندان کو موروثی روحانی رتبے کاحامل قرار دیا جاتا ہے ، نے بھی ’’محاذ ملی افغانستان ‘‘کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی
مزار شریف سے تعلق رکھنے والے شیعہ رہنما عبدالعلی مزاری نے ’’حزب وحدت‘‘ کے نام سے شیعہ کمیونٹی کی تنظیم قائم کی تھی ۔ جہاد کے دنوں میں اسے ایران کی بھرپورسپورٹ حاصل رہی ۔ بعدازاں یہ تنظیم دو حصوں یعنی حزب وحدت (خلیلی گروپ) اور حزب وحدت (کریمی گروپ) میں بٹ گئی ۔ اسی طرح ایک اور شیعہ رہنما آصف محسنی نے حرکت اسلامی کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کی تھی اور آخری وقت تک یہ تنظیم بھی تحریک مزاحمت کا حصہ رہی ۔ پر ایران کا کوئی ” دانشور” ان تنظیموں کو لیکر اپنے ملک پر یا اسکی پالیسی پر انگلیاں نہیں اٹھاتا ..
پاکستان کا کردار اسلئے زیادہ اہمیت کا تھا کہ اس نے کچھ وقت کے لئے ہی صحیح مختلف جہادی تنظیموں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھا تا کہ یہ اپس میں لڑنا نہ شروع ہوجائیں پر اس میں مکمل کامیاب پھر بھی نہ ہوسکا ،
١٩٨٨ میں جنیوا معاہدہ کے بعدافغان جنگ ختم ہوگئی اور پاکستان کا اس میں کردار بھی ..
اسکے بعد افغان مجاہدین کی مختلف تنظیموں کی آپسی جنگ اور انکی ڈاکٹر نجیب سے دشمنی کی وجہ سے بہت خونریز خانہ جنگی ہوئی ..
*پھر کچھ تاریخ سے نابلد حضرات افغان طالبان کو لیکر عجیب و غریب منطقیں دیتے ہیں ،
طالبان تحریک کے آغاز کے بارے میں کئی قصے مشہور ہیں ، تاہم اصل قصہ جو اس تحریک کے آغاز کا سبب بنا یوں تھا کہ۱۹۹۴ء میں ایک مقامی کمانڈر نے بدفعلی کی غرض سے ایک نوجوان کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا ۔ یہ بات پورے علاقے میں پھیل گئی تھی ، چنانچہ ملا محمد عمر اپنے طالبان اور گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کرکے لڑکے کو چھڑانے کے لیے گئے اور کمانڈر کو قتل کرکے اس کی لاش ایک جگہ لٹکا دی ۔ یہ خالصتاً ایک اتفاقی واقعہ تھا جس کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی نہ اس سے پہلے کبھی ملا محمد عمر کے ذہن میں طالبان کی طرح کسی منظم تحریک کو شروع کرنے کا خیال آیا تھا ، لیکن چونکہ قندہارکے لوگ مقامی کمانڈروں کے ظلم سے تنگ آگئے تھے اور وہ ان سے جان چھڑانے کی خاطر کسی مسیحا کی تلاش میں تھے اس لیے لامحالہ قرب و جوار کے لوگوں کی نظریں ملا محمد عمر اور ان کے طالبان کی طرف اٹھنے لگیں ۔اکتوبر ۱۹۹۴ء میں پاکستان کے وزیر داخلہ میجر جنرل(ر) نصیراللہ بابر نے چھ مغربی سفارت کاروں کے ہمراہ قندہار اور ہرات کے راستے وسط ایشیا تک کا سفر کیا ۔ انھوں نے ترکمانستان جاتے ہوئے ہرات کے گورنر اسماعیل خان سے ملاقات کی ۔ ۲۸ دسمبر کو پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں اسماعیل خان اور افغان ازبک لیڈر رشید دوستم سے ملاقات کی ۔ یہ وہ عرصہ تھا کہ جب ربانی حکومت اور پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے ۔ کابل حکومت سے مایوسی کے بعد حکومت پاکستان جنوبی افغانستان کے راستے وسط ایشیا کے ساتھ تجارتی روابط استوار کرنے کی خواہش مند تھی ، جبکہ دوسری طرف نصیر اللہ بابر کے ساتھ مغربی سفارت کاروں کے دورۂ افغانستان کو تیل اور گیس کی ان بین الاقوامی کمپنیوں کی کوششوں کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاتا ہے جو ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان کے راستے گیس پائپ لائن بچھانے کی آرزومند تھیں۔اسی سال نومبر میں نصیراللہ بابر کے منصوبے کے تحت خیرسگالی کے جذبے کے اظہار کے لیے تیس ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان کا قافلہ کوئٹہ سے ترکمانستان کے لیے روانہ ہوا جسے قندہارمیں مقامی کمانڈروں نے روک لیا ۔ مقامی کمانڈروں سے لڑائی کے نتیجے میں پاکستانی قافلے کے بیس افراد ہلاک ہوئے ۔ اس دوران میں نصیراللہ بابر نے قندہارمیں مقیم پاکستان کے سفارتی عملے کے ذریعے سے ملا محمد عمر سے رابطہ قائم کیا اور ان سے ٹرکوں کے قافلے کو چھڑانے میں مدد کی درخواست کی ۔ اول الذکر واقعے کی وجہ سے چونکہ ملا محمد عمر کا رعب علاقے میں بیٹھ گیا تھا ، اس لیے مجاہد کمانڈروں کے ظلم و ستم سے تنگ آنے والے قندہار کے باشندے بندوقوں سمیت ملا محمد عمر اور ان کے ساتھیوں کی حمایت میں نکل آئے اور ایک ہی دن کے اندر وہ مجاہد کمانڈروں کو ماربھگانے اور پورے قندہار پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوگئے ۔ ملا محمد عمر اور ان کے ساتھی پاکستانی قافلے کو چھڑانے کے بعد قندہارپر اپنا قبضہ مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ بیشتر سابق کمانڈر قندہار چھوڑ کر فرار ہوگئے اور جو ہاتھ آئے انھیں قتل کرکے ان کی لاشوں کو چوراہوں میں لٹکا دیا گیا ۔ ملا محمد عمر اور ان کے ساتھیوں کی اس اچانک اور غیرمعمولی کامیابی نے نہ صرف انھیں دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا دیا ، بلکہ پورے علاقے میں ان کی شخصیت کا رعب بھی بیٹھ گیا ۔ صرف بیس روز بعد یعنی ۲۵ نومبر کو طالبان نے قریبی صوبے ہلمند پربھی قبضہ کرلیا اور یوں طالبان کی فتوحات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
باقی کابل پر یلغار سے لے کر ڈاکٹر نجیب کی ہلاکت تک کے واقعات حکومت حاصل کرنے کی جنگ تھی یہ کوئی نی جنگ نہیں تھی ، افغانستان کتریخ اٹھا کر دیکھ لیں وہاں اسی طرح حکومتیں بدلتی آئی ہیں ، پہلے اس لئے کوئی توجہ نہیں دیتا تھا کہ وہ بادشاہ اور عیاش لوگ تھے جنھوں نے سگے رشتوں کا خون کر کے تحت سنبھالا پر اس بار داڑھی اور پگڑی والے ملا عمر نے کابل پر قبضہ کیا تھا لہٰذا لوگوں کو تکلیف کچھ زیادہ ہوئی .
سوویت جنگ ہو یا موجودہ جنگ یہ صرف اورصرف وطن کی آزادی کی جنگ ہے شریعت ، اسلامی نظام کا نفاذ یہ محض منشور یا نعرہ کے لئے استعمال کیا گیا لہٰذا آئندہ کسی بھی شے کو پاکستان سے جوڑنے سے قبل ایک بار تاریخ کا مطالعہ کرنے کی زحمت ضرور کر لیں اور یہ یاد رکھیں کہ اگر پختون خود اسلحہ اٹھانا چاہے تو کوئی دنیاوی طاقت اسے اس کام سے نہیں روک سکتی اور ہوسکے تو کبھی پاک افغان سرحدی علاقوں کبھی دورہ کریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے