انتہا پسندی اور برصغیر

ڈھاکا میں دہشت گردی کے واقعے میں درجنوں افراد کی ہلاکت کوئی معمول کا واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے ذہن کی کارروائی ہے جس کا انتہا پسندوں نے برین واش کر دیا تھا۔ وزیراعظم حسینہ شیخ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ اسلام نہیں۔ ڈھاکا کے وزیر اطلاعات حسن الحق نے تو اس حملے کی ذمے داری پاکستان پر عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اس کے لیے ٹھوس ثبوت پیش کیا جانا چاہیے ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ یہ الزام ڈھاکا کی اسلام آباد کے ساتھ دشمنی کا شاخسانہ ہے۔

پہلے پیرس میں پھر برسلز میں اور اب ڈھاکا میں۔ پیغام ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ اس طرح سیکولرازم اور جمہوریت جیسے نظریات کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ بھارت غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مدرسوں میں سائنس کو متعارف کرایا گیا ہے لیکن ملا اور مولوی اس پر خوش نہیں ہیں اور ملک کے دور افتادہ علاقوں میں جہاں کہیں ان کو موقع ملتا ہے وہ سائنس نہیں پڑھاتے۔ بنگلہ دیش ایک طویل عرصے سے دہشت پسندی کی زد میں ہے۔ البتہ پاکستان کے ساتھ اس کی شدت پسندی میں فرق ہے۔ پاکستان جہاں سرکاری اور قومی سطح پر دہشت گردی کی بیخ کنی میں مصروف ہے وہاں بنگلہ دیش سرکاری اور قومی سطح پر اسی دہشت گردی کا خالق بنا ہوا ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت جس تھوک کے بھاؤ بزرگ افراد کو تختہ دار پر کھینچتی رہی لہٰذا بنگلہ دیش کی دہشت گردی گویا حسینہ کی شدت پسندی کا ردعمل بھی ہو سکتی ہے۔

یہ درست ہے کہ مسلمانوں میں مستثنیات بھی موجود ہیں جس طرح بھارت کے سابق صدر عبدالکلام اور پاکستان کے اے کیو خان جو بے حد ذہین اور روشن دماغ کی مثال ہیں کیونکہ انھوں نے دنیا کے سامنے اپنی تکمیل شدہ صناعی کا شاندار نمونہ پیش کیا لیکن جو ہتھیار وہ بنانے کے قابل ہو چکے ہیں وہ بے حد ہلاکت خیز اور تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے بھارتی شہر بھوپال میں پیدا ہونیوالے ڈاکٹر اے کیو خان کا انٹرویو کیا تو انھوں نے مجھے خبردار کیا کہ ’’اگر تم لوگوں نے ہمیں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی تو ہم بم چلا دیں گے‘‘۔ میں نے پاکستان میں بعض لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ بم پہلے استعمال کر کے بھارت کو تباہ کر دینا چاہیے۔

لیکن میں نے ڈاکٹر خان کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کہا کہ آپ ممکن ہے کہ شمالی بھارت کو تباہ کر دیں لیکن اسطرح پاکستان کا وجود بھی ختم ہو سکتا ہے جب کہ بھارت کا اتنا علاقہ یقیناً بچ جائے گا کہ وہ جنوبی ہند کے وسائل کو استعمال کر کے اپنی ازسرنو تعمیر کر لے۔اب ذرا آپ اپنی چشم تصور سے اس منظرنامے کو دیکھیں جب یہ ڈرٹی بم دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائے گا وہ تو پوری دنیا کو تاوان کے لیے یرغمال بنا لیں گے۔

ڈھاکا میں کیا ہوا کہ شہر کے سب سے پوش علاقے گلشن کے سفارت کاروں کے لیے مخصوص ایک ریسٹورنٹ میں دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ اب آپ سوچئے کہ اگر ان کے پاس جوہری بم ہوتا تو ہلاک ہونیوالوں کی تعداد چند درجن تک محدود نہ رہتی بلکہ ہزاروں لاکھوں سے بھی تجاوز کر جاتی اور اس میں سرحد کے دونوں طرف کے لوگ شامل ہوتے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کی حکومتیں بھی یہ بات سوچ لیں کہ اب وسیع پیمانے پر دہشت گردی صرف دور دراز کے ملکوں یعنی شام اور یمن تک محدود نہیں رہی۔ اب داعش بھی آگئی ہے۔

جس کا دعویٰ ہے کہ اسے مقامی حمایت بھی میسر ہے۔ ڈرٹی بم بنانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ تکمیل شدہ شکل میں جوہری ہتھیاروں کو اغوا کیا جائے بلکہ صرف کسی سول نیوکلیئر سہولت تک رسائی کی ضرورت ہے خواہ یہ پاور ری ایکٹرز ہوں جیسے کہ کانپور اور کراچی میں ہیں یا ریسرچ سینٹرز جیسا کہ ممبئی کے قریب ٹرومبے میں واقع ہے۔ جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے تو حکمت عملی کے اعتبار سے مطلوب جوہری مواد جو کہ بم بنانے کے لیے درکار ہو اس کا راستہ مکمل طور پر یعنی فول پروف طریقے سے بند کرنا ممکن نہیں۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو مل کر اس مخصوص ایشو پر غور و فکر کر کے خطے کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ بنانا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے بنیاد پرستوں کی راہ میں ٹھوس روکاوٹیں کھڑی کرنی چاہئیں جیسے کہ حیدر آباد دکن میں اویسی جیسے لوگ موجود ہیں۔ وہ غلط موقف اختیار کر کے اخباری سرخیوں میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے جو کہ کٹر لوگوں کو پسند آتا ہے۔

میری خواہش ہے کہ میڈیا اسے وہ پبلسٹی نہ دے جو اسے مل رہی ہے لیکن پھر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ میڈیا اس کے اشتعال انگیز بیانات کو نظرانداز بھی نہیں کر سکتا۔ اگر ہم برصغیر کی پچھلی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ علیحدگی کے بیج لاہور سے نکلنے والے دو اخبارات نے بوئے۔ ایک مسلمانوں کی نمایندگی کرتا تھا اور دوسرا ہندوؤں کی۔ انھوں نے ان دونوں کا تعلق دو مختلف قوموں سے ہے۔

مجھے یاد آتا ہے کہ مختلف ہونے کا احساس لاء کالج لاہور میں پروان چڑھایا گیا جہاں میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ مشترکہ باورچی خانہ بالآخر ہندو کچن اور مسلم کچن میں تقسیم ہو گیا بالکل اس طرح جس طرح ریلوے اسٹیشن پر ہندو پانی اور مسلم پانی کی آوازیں شروع ہوئی تھیں۔ خوش قسمتی سے زیادہ طلباء اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ لاء کالج کے ڈائننگ روم میں مسلمان اپنے کچن سے اور ہندو اپنے کچن سے کھانا لیتے لیکن ہم سب اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ کچن کے تقسیم ہونے کی ہم نے پرواہ نہ کی تھی لیکن ملک کی تقسیم کا خیال انھی طریقوں سے پیدا ہوا اور بالآخر برصغیر تقسیم ہو گیا لیکن اس بات کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آبادی کو زبردستی نکال دیا جائے گا۔

ہمارے گھر والوں نے بھی سیالکوٹ میں رہنے کی کوشش کی جو اب پاکستان میں ہے اس خیال کے باوجود کہ اب ہم اقلیت میں رہ جائیں گے جس طرح مسلمان بھارت میں ہونگے لیکن دونوں امن سے رہتے رہیں گے لیکن یہ نہیں ہو سکا کیونکہ دونوں اطراف کی بیوروکریسی کو بھی مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا۔ دونوں برادریوں کے دس لاکھ افراد مارے گئے۔ اتنے بڑے قتل عام کا آج تک کوئی احتساب نہیں ہوا اور میں چاہتا ہوں کہ بھارت کے ہندو، سکھ مسلمانوں سے معافی مانگیں اور ایسا ہی دوسری طرف سے بھی کیا جائے۔ اس سے پرانے زخم تو نہیں بھریں گے مگر ممکن ہے کہ باہمی تعلقات کا نیا دور شروع ہو سکے تب ہی دہشت گردی ختم ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے