آنکھیں تو عطیہ کیجیے

میں نے ایک بار ایک لڑکے کو لفٹ دی۔ اس کی آنکھوں پر ایک نیلی سی جھلی چڑھی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کی آنکھیں پیدائشی ایسی تھیں اور اسے بہت کم نظر آتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا اس کا علاج ممکن ہے؟ اس نے کہا ممکن ہے، اگر اسے کسی کی آنکھوں کا عطیہ مل جائے۔ اس نے بتایا کہ الشفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں اس نے اپنانام لکھوایا ہوا ہے۔ لیکن اس کی باری آنے مین برسوں لگیں گے۔ کیونکہ آنکھوں کا عطیہ کرنے کا رجحان دنیا میں بہت کم ہے۔ سب سے زیادہ سری لنکا سے آنکھوں کا عطیہ آتا ہے۔

ذرا سوچئے کہ دنیا میں قابل علاج نابینا افراد کی تعداد بینا افراد کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ اگر آنکھوں والوں کی ایک بڑی تعداد بعد از مرگ اپنی آنکھیں عطیہ کر دیا کرے تو تمام قابل علاج نابینا افراد کو بینائی کی نعمت عطا ہو سکتی ہے ۔

نابینا پن کتنی بڑی آزمائش ہے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کبھی اندھیرے میں واش روم جانا پڑ جائے تو انسان کیسا عاجز اور بے بس محسوس کرتا ہے۔ دروازہ تک معلوم نہیں پڑتا۔ جگہ جگہ ٹکر لگتی ہے۔ سوچئے کہ یہی حالت جن کی مستقل ہوتی ہے، ان کے لیے زندگی کتنی مشکل ہوتی ہوگی۔زندگی کے رنگ ہی ان کو معلوم نہیں ہو سکتے۔ اپنے پیاروں تک کی وہ شکل نہیں دیکھ سکتے۔ اور وہ لوگ جن کی بینائی بعد میں کسی وجہ سے ختم ہو جاتی ہے، ان کے لیے اور بھی اذیت کی بات ہے ۔ہم اگر چاہیں تو قابلِ علاج نابینا پن کو ختم کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں ۔ ہم سب کو اپنی آنکھیں بعد از مرگ عطیہ کردینی چاہیں۔

آنکھیں عطیہ کرنا کوئی اتنا بڑا کارنامہ بھی نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کپڑا آپ نے خوب پہنا ہو اور پھر جب آپ کے کام کا نہ رہے تو کسی غریب کو صدقہ کر دیں۔ لیکن یہ آنکھیں کسی نابینا کے لیے کل کائنات ہوتی ہیں۔ جن آنکھوں کو قبر میں میں کھا جانا ہے، وہ اگر کسی کی کاینات روشن کر دیں تو ان کواس طرح ضائع کرنے کی بجائے ان کی افادیت کو باقی رکھنا چاہیے۔ آج اگر سائنس نے یہ موقع ہمیں مہیا کر دیا ہے تو اس کو صدقہ جاریہ سمجھ کر اپنانا چاہیے۔

ہمارے جذباتی قسم کے معاشرے میں مردے کے جسم کی تکریم زندوں سے زیادہ کی جاتی ہے۔ اس لیے لوگ اس بارے میں جذباتی باتیں کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد مردے کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ مردہ جسم کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ بلکہ بہت ممکن ہے کہ مرنے والے کی آنکھیں عطیہ کرنے کی نیکی اس کی قبر کی مشکلات میں آسانی پیدا کرنے کا سبب بن جائے۔

فقہی نقطہ نظر سے بھی یہ غلط نہیں۔ عالم عرب کے مشہور عالم علامہ یوسف قرضاوی اور دیگر اہل علم انسانی اعضاء کے عطیہ کے جواز کے قائل ہیں۔ انسانی جسم سے اگر زندگی میں دوسرے انسانوں کی مدد کی جا سکتی ہے، اگر دوسروں کی خاطر جان تک قربان کی جا سکتی ہے تو جان کا کوئی حصہ بھی قربان کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ معاملہ حکومت کی نگرانی میں ہونا چاہیے تاکہ کسی گھناؤنی تجارت کا سبب نہ بن جائے۔

صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ دیگر اعضاء کو بعد از مرگ عطیہ کردینے کی وصیت کرنی چاہیے۔ لیکن اس وصیت کو صرف اپنے متعلقین تک محدود رکھا جائے اور اعضاء صرف اس ادارے کو عطیہ کیے جائیں جو ان کا درست استعمال کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے