گلگت والو! کچھ غیرت کشمیریوں کو

آج سے ڈیڑھ سال قبل گلگت بلتستان کے انتخابات ہوئے تووہاں بھی وفاق کی تمام سیاسی جماعتوں کی بھرپورمداخلت رہی .اسلام آباد کے جھگڑوں کو وہاں بھی منتقل کرنے کی جان توڑکوشش کی گئی لیکن ہوا کچھ یوں کہ جب بھی کوئی مقامی لیڈر(کسی بھی جماعت کا مقامی صدر) بات کرتا تو وہ اپنے وسائل پر اپنے حق کی بات کرتا ۔ وہ کہتا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے اور با اختیار کیا جائے ۔ہمیں ہمارے وسائل پر اختیار دیا جائے۔دیامیر بھاشا ڈیم ہماری ملکیت ہے اس پر ہمیں اختیار دیا جائے۔ اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کو دو اکنامک زون دئے جائیں۔ قانون سازی کا حق ان کو دیا جائے۔ یہ وہاں کی انتخابی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا شعور اور اپنے خطے کیلئے اخلاص ہے.

گلگت کے باشندے پارلیمانی سیاست میں آزاد کشمیر سے تقریباً تین دہائیوں کے بعد آئے لیکن اپنے حقوق کے حصول کے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کی کوششوں سے اس ریجن کو شمالی علاقہ جات سے گلگت بلتستان کی پہچان ملی اور عبوری صوبے کا درجہ ملا اور اب وہ اپنے وسائل کیلئے کھڑے ہیں ۔ دوسری طرف ہم (آزاد کشمیر ) 1974 سے پارلیمانی نظام کے تحت سیاسی امور کو انجام دے رہے ہیں لیکن‌ ہمیں ابھی تک اپنے حقوق کی آگاہی تک نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں چار دن باقی ہیں بھر پور زور و شور سے انتخابی مہم چلائی گئی ۔ اب تک کی انتخابی مہم پر نظر دوڑائی جائے تو وفاقی وزرا عمران خان اور بلاول نے پورے آزاد کشمیر کا دورہ کیا اور بھرپور طریقے سے ایک دوسرے کو گالیاں دیں ۔ اسلام آباد کی لڑائی آزاد کشمیر منتقل کرنے کی کوشش کی لیکن آزاد کشمیر کے مسائل ، وسائل اور بااختیار کرنے کی بات تک نہیں کی گئی۔ہمارے سیاستدانوں نے بھی غیرت کرنا گوارا نہیں کی انہوں نے بھی صرف ایک دوسرے کو ہی برا بھلا کہا۔کسی نے آزاد کشمیر کے وسائل پر بات تک نہیں کی نا ہی کسی سیاسی جماعت کے منشور میں آزاد کشمیر کے وسائل کو زیر بحث لایا گیا۔

اس وقت آزاد کشمیر میں ایک بڑا پراجیکٹ نیلم جہلم ہائیڈروالیکٹرک پراجیکٹ چل رہا ہے جس کوزیر بحث لایا جائے توکہا جاتا ہے یہ وفاق کا پراجیکٹ ہے . اس پر بات نہیں ہو سکتی ، وفاقی حکومت کی مرضی ہے اس سے ہمیں کچھ دے یا نہ دے۔ ارے بھائی! پراجیکٹ تو وفاق کا ہے لیکن ہے تو آزاد کشمیر میں ، تعمیر اسلام آباد یا کہیں اور تو نہیں ہو رہی ہے۔کیا اسے بھی اسی طرح چھوڑ دو گے جیسے منگلا ڈیم پر تین غیر ریاستی باشندوں نے آپس میں معائدہ کیا تھا اور ابھی تک وہاں سے ریاست کیلئے کچھ بھی حاصل نہیں‌ہو پا رہا؟ ۔منگلا ڈیم میں ہم نے قبرستان ڈبو کر کچھ حاصل نہ کیا لیکن یہاں تو کئی گاﺅں تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ (روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس پروجیکٹ کے لیے مختص علاقے ڈنہ کیچیلی میں جو گاﺅں اور زمیں دھنسنا شروع ہوئی اس کی بڑی وجہ نیلم جہلم پراجیکٹ کے دوران کی جانے والی بلاسٹنگ ہے) کیا اب اپنا سب کچھ دے کر بھی اپنا حق نہیں جتا سکتے۔منگلا ڈیم کو دیکھا جائے تو اس کا ذکر بھی کسی نے نہیں کیا۔ واپڈا کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ آزاد کشمیر واپڈا کا 55 ارب کا مقروض ہے یہ ٹھیک ہے کہ آزاد حکومت کو بلات کی مد میں پیسے ادا کرنے چاہیئں کیونکہ وہ عوام سے باقاعدگی سے وصول کئے جاتے ہیں لیکن واپڈا اس وقت تک منگلا سے جو بجلی استعمال کر چکا ہے اس کی رائلٹی4400 ارب (دو سال پہلے روزنامہ دھرتی کے ایک اداریے کے مطابق) بنتی ہے۔آزاد کشمیر کے کسی سیاستدان نے پوری انتخابی مہم میں کسی سیاست دان نے اس پر بات نہ کی۔

باقیوں سے تو وسائل پر بات کرنا عبث ہے اس حوالے( منگلا رائلٹی ) سے فاروق حیدر کئی مرتبہ بات کر چکے ہیں تاہم انتخابی مہم میں منگلا یا آزاد کشمیر کے کسی منصوبے پر بات کرنے سے انہیں مفاد نے روکا یا اقتدار کے حصول کے نشے نے ، یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں ۔ایک بڑا پراجیکٹ اقتصادی راہداری جس میں پورے پاکستان( ہر صوبے ) نے اپنے حق کی بات کی اور آزاد کشمیر والوں کو اس پر بات کرتے ہوئے سانپ سونگھ گیا۔ شاید اس منصوبے میں تاﺅ بٹ سے بھمبر تک روڈ کا ایک پراجیکٹ رکھا گیا ہے( جسے جموں کشمیر پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں بھی رکھا ہے)۔آزاد کشمیر کے وسائل کے حوالے سے کچھ سیاست دانوں سے بات کی تو کوئی دلچسپی نظر نہیں آئی ۔ اس کے بعد سب سے بڑا مسئلہ اسمبلی کے با اختیاری کا ہے اس پر ایک لفظ منہ سے نکالنا گوارا نہیں کیا شائد ہمیں بے اختیاری راس آگئی ۔ بہت سیاست ہوئی تھی ایکٹ 74 میں ترمیم کے حوالے سے لیکن بے سود ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے شور مچایا تھا کہ اختیارات ملنے چاہئیں لیکن وقت نے دکھایا کہ مظفر آباد اور اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود کچھ نہ کیا گیا۔ ن لیگ کی طرف سے شور ہوا تو یہ دیکھنے کو ملا کہ آزادکشمیر اسمبلی مسودہ منظور کر کہ کونسل کو بھیج دیتی ہے اور کونسل کا چئیر مین میاں نواز شریف ہونے کے باوجود ترمیم ممکن نہیں ہو سکی۔

اس وقت تمام سیاست دان اور عوام گجر، راجپوت، جاٹ اور سدھن بنے پھرتے ہیں ۔عوام کو کچھ معلوم نہیں کہ اس نے ووٹ کس بنیاد پر دینا ہے ، اس کے ووٹ سے ریاست کو کیا فائدہ ہو گا۔کسی نے کسی سیاست دان سے سوال نہ کیا کہ وہ وسائل اور اختیارات کی بات کیوں نہیں کر رہا؟ کسی کو معلوم نہیں کہ جس اسمبلی کیلئے وہ ووٹ دینے جا رہے ہیں اس کے پاس کیا اختیارات ہیں۔آزاد کشمیر کے عوام اور سیاست دانوں کیلئے ہی شائد کہا گیا ہے کہ جیسی روح ویسے فرشتے ہوتے ہیں . عوام کو ایسے سیاست دان ملے جو ان کے معیار پر پورے اترتے ہیں اس لئے ان کیلئے لڑائی جھگڑے بھی کئے جاتے ہیں ، جانیں دی جاتیں ہیںاور ایک دن کی خاطر عمر بھر کی ناراضیا ں مول لی جاتیں ہیں۔

گلگت والو! آپ ہی کچھ غیرت ہمیں ادھار دے دیں شاید ہم میں بھی اپنے وسائل پر حق جتانے کا سلیقہ آ جائے۔ ہم میں بھی ہمت پیدا ہو کہ سیاستدانوں سے سوال کر سکیں ۔ کسی ایسے کو منتخب کر سکیں جو اکیلا ہی اسمبلی میں ہو لیکن وہ عوام کے حقوق کی بات کر اپنے با اختیار ہونے کی بات کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے