افغان یونیورسٹی حملہ: ’تکنیکی شواہد نہیں ملے’

[pullquote]اسلام آباد: پاکستان نے افغان حکام کو آگاہ کیا ہے کہ کابل میں امریکی یونیورسٹی پر حملہ کرنے والوں کے سرحد پار موجود لوگوں سے رابطے سے متعلق کسی قسم کے ‘تکنیکی شواہد’ نہیں پائے گئے، جبکہ اس سلسلے میں افغانستان سے مزید ثبوت بھی فراہم کرنے کو کہا گیا ہے۔[/pullquote]

ایک سیکیورٹی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ افغان صدر اشرف غنی سے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے انھیں اس بات سے آگاہ کیا۔ واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے حملے میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف شواہد کی روشنی میں سنجیدہ اور عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ گفتگو ایک ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی رچرڈ اولسن، امریکی صدر کے معاون خصوصی ڈاکٹر پیٹر لیوائے اور افغانستان میں امریکی سپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے اسلام آباد کا دورہ کیا، جہاں انھوں نے جنرل ہیڈکوارٹرز اور دفتر خارجہ میں مختلف اجلاسوں میں شرکت کی۔ یاد رہے کہ کابل میں امریکی یونیورسٹی پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک جبکہ 45 زخمی ہوئے۔

افغان حکومت نے امریکی یونیورسٹی پر حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہونے کا الزام عائد کیا اور پاکستان کو 3 موبائل نمبرز کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ حملہ آور مبینہ طور پر حملے کے وقت ان نمبرز سے رابطے میں تھے۔ افغان حکام کی جانب سے فراہم کی گئی تفصیلات پر پاک فوج نے پاک افغان سرحد کے قریب چمن کے مشتبہ علاقوں میں کومبنگ آپریشن کیا اور پیشرفت سے افغان حکام کو آگاہ کیا گیا۔

دوسری جانب پاک افواج کے شعبہ تعقات عامہ یعنی انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا، ‘ہم نے فراہم کیے گئے ثبوتوں کی روشنی میں کومبنگ آپریشن کیا اور اب تک یہ معلوم ہوا ہے کہ حملے کے دوران جتنی بھی افغان سمز استعمال ہوئیں وہ ایک افغان کمپنی کے نیٹ ورک کی ملکیت ہیں اور اسی کے ذریعے آپریٹ کی جاتی ہیں، جس کے سگنلز کچھ حد تک پاک افغان سرحد کے ملحقہ علاقوں تک بھی پہنچتے ہیں’۔ تاہم پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں، حملے کے بعد افغان حکام کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کا جائزہ جاری رکھے ہوئی ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان آپریشنل انٹیلی جنس شیئرنگ کی غیر موجودگی کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کے معاملات میں تعاون پیچیدہ صورتحال کا شکار ہوجاتا ہے۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کے حوالے سے اس سے قبل بھی متعدد کوششیں کی گئیں، تاہم تمام کوششیں رائیگاں گئیں کیونکہ افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) اس کے خلاف ہے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) نے گذشتہ برس ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے تاہم افغانستان کی جانب سے اسے معطل کردیا گیا۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغان صدر سے گفتگو کے دوران حملے میں پاکستان میں موجود عناصر کے ملوث ہونے سے متعلق مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی تاہم اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب افغانستان مزید معلومات بھی فراہم کرے۔ دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے بھی اس حملے کی شدید مذمت کی گئی۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا، ‘پاکستان کابل میں امریکی یونیورسٹی پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اور ہم افغان حکومت، افغان عوام اور حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے دلی تعزیت کرتے ہیں’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے