جی-20 اجلاس: چین کی عالمی برادری کو ‘بامقصد مذاکرات’ کی تجویز

[pullquote]ہینگ ژو: چین میں جاری دنیا کے بڑے معاشی ممالک کے گروپ جی 20 کے اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ نے عالمی برادری کو بے مقصد مذاکرات کرنے سے خبردار کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں کو تجویز دی کہ دنیا میں اقتصادی بہتری کے لیے بامقصد بات چیت کی ضرورت ہے۔ [/pullquote]

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے عالمی مسائل کے حل کیلئے بات چیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی معیشت میں بہتری آرہی ہے تاہم ابھی بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔

خیال رہے کہ دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں پر مشتمل جی ٹوئنٹی گروپ کے ممبران کا اجلاس پہلی مرتبہ چین میں منعقد ہو رہا ہے۔ چین کے شہر ہانژوا میں جاری اجلاس کے دوران چینی صدر شی جی پنگ کا کہنا تھا کہ عالمی معیشت کو درپیش حالیہ مسائل کی وجہ سے دنیا ‘جی ٹوئنٹی’ سے کافی اُمیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہے۔
_91020496_mayjinpinggetty

گذشتہ روز چین میں دنیا کے بڑے معاشی ممالک کے گروپ جی ٹوئنٹی کے سربراہان مملکت اجلاس میں شرکت کے لیے ہینگ ژو پہنچے تھے جبکہ چین اور امریکا نے ماحولیات کے پیرس معاہدے کی توثیق کرنے کے بعد دستاویزات اقوام متحدہ کے سربراہ کے حوالے کردی تھیں۔ یاد رہے کہ 3 سے 5 ستمبر تک جاری رہنے والی اس سمٹ میں عالمی معاشی صورتحال، دہشت گردی، ماحولیاتی آلودگی سمیت دیگر اہم امور زیر غور آئیں گے۔

اس موقع پر شہر بھر میں سیکیورٹی کے بھی سخت اقدامات کیے گئے ہیں، جبکہ فضا کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے فیکٹریاں بند کردی گئی ۔ واضح رہے کہ چین میں آلودگی کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور کسی بھی بین الاقوامی اجلاس کے موقع پر آلودگی کو کم کرنے کیلئے فیکٹریاں اور کارخانے بند کردیے جاتے ہیں جبکہ بعض اوقات تو چھٹی کا بھی اعلان کردیا جاتا ہے تاکہ ٹریفک کا دباؤ کم رہے۔

اجلاس میں دیگر اہم مسائل پر بات چیت کے علاوہ برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو چھوڑنے کے فیصلے، بین الاقوامی سٹیل کی منڈی کو درپیش بحران اور ایپل جیسی بڑی کمپنیوں کے ٹیکس مامعلات پر بھی غور کیا جائے گا۔ جی 20 اجلاس سے قبل عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردار کی تھا کہ اس برس بھی عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی امکان موجود ہے۔

عالمی موسمیاتی معاہدہ کیا ہے؟

امریکا اور چین کی جانب سے عالمی موسمیاتی معاہدے کی حالیہ توثیق کا مقصد دنیا کو اس بات کا پیغام دینا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والے 2 ممالک ماحول کو بہتر بنانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں پیرس میں ہونے والے ایک اجلاس میں 180 ممالک نے متفقہ طور پر عالمی موسمیاتی معاہدے کو حتمی شکل دی تھی اور جب کم سے کم 55 ممالک کی حکومتوں کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق کردی جائے گی تو 30 یوم کے اندر اس کا نفاذ عمل میں آجائے گا۔

دنیا میں مجموعی طور پر خارج ہونے والی ضرر رساں گیس کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ چین خارج کرتا ہے جبکہ امریکا دوسرے نمبر پر ہے۔ اب تک معاہدے پر دستخط کرنے والے 180 ممالک میں سے صرف 24 ملکوں کی حکومتوں نے اس کی توثیق کی ہے جن میں زیادہ تر چھوٹے جزائر شامل ہیں جنہیں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں خود کے ڈوب جانے کا خدشہ ہے حالانکہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے زیادہ ذمہ دار نہیں۔

پیرس معاہدے کے تحت چین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2030 تک کاربن کا اخراج 2005 کی سطح سے 60 سے 65 فیصد تک کم کردے گا اور توانائی کے قابل تجدید اور شفاف ذرائع کی شرح میں 20 فیصد تک اضافہ کرے گا۔ معاہدے کے تحت امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2025 تک کاربن اخراج 2005 کی سطح سے 26 سے 28 فیصد تک کم کردے گا۔ پیرس معاہدے پر بحث کے دوران چین نے موقف اختیار کیا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی کیلئے ان ترقی یافتہ ممالک کو زیادہ حصہ ملانا چاہیے جنہوں نے صنعتی انقلاب سے اب تک دنیا کو سب سے زیادہ آلودہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے جس کہ وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر بلند ہورہی ہے جس کی وجہ سے کئی جزائر کے سمندر میں ڈوب جانے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں،اس کے علاوہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسموں میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔

جی ٹوئنٹی گروپ ان ممالک پر مشتمل ہے؛ آسٹریلیا، کینیڈا، سعودی عرب، امریکا، انڈیا، روس، جنوبی افریقا، ترکی، ارجنٹائن، برازیل، میکسیکو، فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، چین، انڈونیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے