شام میں گذشتہ دو روز سے جاری فضائی حملوں کے بعد جنگ بندی کا آغاز ہو گیا ہے، تاہم یہ معلوم نہیں ہے کہ اس پر کس حد تک عمل درآمد کیا جائے گا۔اگر یہ معاہدہ سات دنوں تک برقرار رہا تو امریکہ اور روس جہادی عسکریت پسندوں کے خلاف مشترکہ حملے کریں گے۔شامی فوج کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کر رہی ہے، تاہم باغیوں کے ردِ عمل کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے خبردار کیا ہے کہ یہ متحد شام میں امن کا آخری موقع ہو سکتا ہے۔واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ میں بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بعض ابتدائی رپورٹوں کے مطابق ’تشدد میں کمی آئی ہے۔‘تاہم انھوں نے کہا کہ فی الحال معاہدے کے بارے میں حتمی تخمینہ لگانا قبل از وقت ہو گا۔
کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ جمعے کے روز سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں طے پایا ہے، تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا مختلف باغی تنظیمیں بھی اس کی پاسداری کریں گی یا نہیں۔ادھر شامی میڈیا نے صدر بشارالاسد کا بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔
شام میں باغی گروہ فری سیریئن آرمی نے امریکی حکومت کو ایک خط میں کہا ہے کہ وہ اس جنگ بندی میں مثبت انداز میں معاونت کریں گے تاہم ان کا خیال ہے کہ اس سے شامی حکومت کو فائدہ پہنچے گا۔
ادھر ایک اور طاقتور تنظیم احرار الشام نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ چھ سال سے جاری ان مسائل کے ’کچے پکے حل‘ تسلیم نہیں کر سکتے۔
یاد رہے کہ اس معاہدے کے اعلان کے بعد باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں فضائی حملے کیے گئے ہیں جن میں کم سے کم 100 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ادلب میں ایک بازار پر حملے میں 60 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ حلب میں ہونے والے فضائی حملوں میں 45 لوگ مارے گئے ہیں۔
ترکی اور یورپی یونین نے جنگ بندی کے اس منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس حوالے سے مزید اقدامات کی بھی ضرورت پر زور دیا تھا تاہم ترک صدر رجب طیب اردوغان نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ ہمسایہ ملک شام میں خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کو شکست دینا ترکی کی ذمہ داری ہے۔
شام میں شورش کا آغاز پانچ سال پہلے صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت سے ہوا اور اب تک اس میں کم سے کم تین لاکھ سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔
کہانی کو شیئر کریں