تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔قرآن( 03:104) آج انسانیت انتہائی پستی کی طرف رواں دواں ہے۔جس کی وجہ دین سے دوری اور آخرت سے بے پرواہی ہے یہی وجہ ہے کہ کئی قسم کے فتنے جنم لے رہے ہیں ۔انہی فتنوں میں ایک فتنہ "فحاشی” ہے۔ فحاشی دنیا میں عام طور پر اور مملکت پاکستان میں خاص طور پر تیزی سے پھیل رہی ہے اور اسے جدید ترقی کا نام دیا جارہا ہے ۔اس نام نہاد ترقی کو پھیلانے میں ہمارے حکمراں ان تمام شرافت کی حدود کو پھلانگ چکے ہیں اور سرکاری سرپرستی میں روشن خیالی کے نام پر وہ گل کھلائے جا رہے ہیں کہ الامان والحفیظ۔اور اس کو ثابت کرنے کے لیے وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں جس سے یورپ بھی شرما جائے۔برسرعام قوم کی بہن بیٹیوں کو ثقافت کے نام پر غیروں کے سامنے نچوایا جاتا ہے اور انہیں خوش کرنے کے لیے وہ تمام غیر اسلامی اور بے ہودہ تہوار جن میں میراتھن ،بسنت ،ہولی ،دیوالی ،کرسمس اور ویلنٹائن ڈے سمیت تمام لغویات پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ساتھ ہی ساتھ ہمارے نام نہاد روشن خیال حکمراں میراتھن وغیرہ کی آڑ میں بے پردگی کو بھی پروان چڑھانے میں پیش پیش ہیں اور پردہ کے بارے میں ہر زہ سرائی کرتے ہیں ۔
ٹی وی پر میراتھن میں نیکر پہنی ہوئی لڑکیوں کے بارے میں اگر کہا جائے تو صاف صاف یہ جواب دیا جاتا ہے کہ اپنے ٹی وی بند کر لو یا اپنی آنکھیں بند کر لو۔حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب مردوزن کی مشترکہ میراتھن کا اہتمام بھی کیا جانے لگا ہے اور اس کے لئے متعدد بے حیا خواتین کافی سرگرم عمل نظر آرہی ہیں۔ ہمارا الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ہر طرف یہ دوڑ لگی ہوئی ہے کہ فحاشی اور عریانی کے معاملے میں کون سبقت لے جاتا ہے اور یہ کریڈٹ کس کو ملتا ہے ؟ اخبارات ،رسائل وجرائد ہر ایک بے حیائی اور فحاشی پھیلانے میں پیش پیش ہیں ۔ہر طرف عورت کو سرعام استعمال کیا جارہا ہے،آپ دیکھئے کہ یہ کمرشل دور ہے یہاں کوئی بھی اشتہار میں عورت کا کام ہو یا نہ ہو اسے شامل کیا جاتا ہے ۔
ہماری خواتین کا یہ بھی حال ہے کہ ٹی وی اور رسائل میں جو نیا فیشن والا کپڑا یا جیولری دیکھتی ہیں اسے حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتی ہیں اور اس کے لئے بازاروں میں بے پردہ گھومنا ان کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے ،گھر سے نکلنے سے پہلے انہیں بننا سنورنا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے تاکہ دنیا بھر کی نظریں انہیں تکتی رہیں اور مرد بھی بے غیرتی کی علامت بن کر اپنی بیوی،بہن،بیٹی اور ماں کے ساتھ اپنی کمائی ہوئی حلال ہو یا حرام رقم خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عزت بھی داؤ پر لگانے پر تلا ہوتا ہے ۔ اسی طرح معاشرے میں نام نہاد دینی رسومات جیسے میلاد،مجالس ،مہندی،منگنی،ابٹن وغیرہ جو کہ غیر شرعی اور غیر اسلامی ہیں اور اگر کوئی اسلامی طور طریقے جیسے شادی بیاہ،ولیمہ،میت وغیرہ ہوں ان میں بھی مخلوط نشت وبرخاست ،اس میں بے پردگی ،بے حیائی ،ہنسی مذاق اور فحش کلامی عام ہے جو کہ معاشرے کے بگاڑ میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں پھر ان میں محافل میں شرم وحیاء کا جنازہ خوب دھوم سے نکلتا ہے۔
بیوٹی پارلر جگہ جگہ کھول دیے گئے ہیں جن میں خواتین کو چہرے کے بال اکھیڑنا،ان چہروں کو میک اپ کے ذریعے تبدیل کرنا ،وہاں مساج کا انتظام ،فیشل اور نہ معلوم کیسی کیسی بے ہودہ اور لغو قسم کے کام کئے جاتے ہیں حالاں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو خوبصورتی کے لئے اپنے چہرے کے بال اکھیڑتی ہیں ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے گودنے والی اور گدوانے والی چہرے کے بال اکھیڑنے والی ،خوبصورتی کے لئے دانتوں پر سوہن کرنے والی،اللہ کی تخلیق میں تغیر کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔(بخاری کتاب التفسیر سورہ حشر 8/474 وکتاب اللباس ،مسلم کتاب اللباس)
اسی طرح آج ہر گلی اور ہر محلہ میں منی سنیما گھر ،ہر گھر ڈش انٹینا،کیبل ،نیٹ اور دیگر تفریحی چیزیں جو کہ بچوں اور بڑوں کو مسلسل خراب کر رہی ہیں اور ان کے ذریعے نہ صرف ماحول خراب ہو رہا ہے بلکہ ہماری نوجوان نسل بھی برباد ہورہی ہے ،بچے اسکول جانے کے بجائے سیدھے ان گیمز کی دکانوں یامنی سنیما گھروں میں چلے جاتے ہیں اور بعد ازاں یہ بچے اور نوجوان علاقے اور محلے کا ماحول بھی خراب کرتے نظر آتے ہیں ۔اس طرح معاشرہ پورے کا پورا اس شیطانی چکر میں پھنس کر رہ گیا ہے۔لہذا ہم سب کو مل کر ان تمام لغویات کے خلاف باہم جدوجہد کرنا ہوگی تاکہ معاشرہ عذاب الہی سے بچ جائے۔