آدمی ، زمین اور ان کی کائناتی حیثیت!

بعض لوگ ۔آدمی ،زمین اور ان کی کائناتی حیثیت پر بحث کرتے ہوئے یہ باور کرا نے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس حوالے سے مذھب اور اہلِ مذھب کی عام معروف پوزیشن غلط ہے، یعنی نہ یہ انسان کائنات کی کوئی سب سے غیر معمولی مخلوق ہے، اور نہ اس کا اور اس کے مسکن زمین کا تباہ ہو جانا کوئی غیر معمولی واقعہ۔ ان کی تباہی اگر ہوتی ہے، تو ایسے ہی جیسے زمین ایسے لاکھوں بے قیمت سیاروں میں سے کسی سیارے کی ایسی تباہی ، جس کی انسان کو خبر بھی نہ ہو۔اس نوع کی ایک تحریر”مکالمہ” کے پیج پرGill Khurram نام کے ایک صاحب نے لگائی ہے۔ ملاحظہ فرمایے، اہل علم سے گزارش ہے کہ اس پر اپنی رائے کا اظہار فرمائیں:
"انسانی تاریخ میں طویل عرصہ تک زمین کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس طویل دور میں زمین کائنات کا مرکز تھی۔ زمین کے ارد گرد پوری کائنات زمین کی خدمت پر معمور تھی۔ سورج کا کام دن کے وقت زمین کو حرارت اور روشنی پہنچانا، چاند کاکام راتوں کی تاریکی میں روشنی فراہم کرنا اور ستاروں کا کام رات کے وقت سفر کرنے والوں کی راہنمائی کرنا اور سمتوں کے تعین میں مدد دینا تھا۔
زمین پر انسان محترم ترین ہستی تھا۔ چنانچہ کائنات کے جتنے مظاہر زمین کی خدمت پر معمور تھے دراصل انسان کی خدمت پر معمور تھے۔ انسان وجہ تخلیق کائنات تھا۔
اس کائنات کو اس وقت تک قائم و دائم رہنا تھا جب تک انسان کو بحثیت اجتماعی اس کی ضرورت تھی۔ جس دن کسی آسمانی طاقت کے حکم سے انسانیت کا بوریا بسترگول ہونا تھا اسی لمحے کائنات کے سارے نظام کو بھی ہمیشہ کے لئے لپیٹا جانا تھا۔
ہزار ہا سال تک انسان انہی تصورات اور نظریات کے ساتھ زمین پر زندگی کرتا رہا اور زمین کائنات کی چہیتی ملکہ کی طرح کائنات پر حکمرانی کرتی رہی۔ انسان اس زمین پر مادی اور روحانی طاقت کے ذریعے زندگی کے روزمرہ کے چیلنجز سے نبرد آزماہوتا رہا۔
جب تک انسان ان تصورات اور نظریات کے ساتھ زندہ رہا زمین اپنی مرکزی حیثیت کے باوجود چند خطوں تک محدود تھی ۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ زمین مادے کا ایک بہت بڑا گولا ہے جو کہ خلا میں سورج کے گرد اور سورج کے ساتھ کہکشاں میں اور کہکشاں کے ساتھ خلا میں لاکھوں میل فی گھنٹے کی رفتار سے مسلسل اڑ رہی ہے۔
ابن خلدون نے اپنے زمانے میں جس زمین کا نقشہ کھینچا ہے اس میں یورپ سے آگے امریکہ، لاطینی امریکہ اور آسڑیلیا کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ گویا ابن خلدون کے زمانے تک زمین کے یہ حصے موجود نہیں تھے۔
لیکن سولہویں صدی سے یہ صورت حال اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوگئی جب کوپر نیکس نے اچانک انسانوں کو اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ ہماری زمین اس کائنات کی چہیتی ملکہ نہیں بلکہ مادے کا ایک بہت بڑا گولا ہے جو کہ سورج کے گرد گھوم رہا ہے۔
کوپرنیکس پہلا شخص نہیں تھا جس نے زمین کے سورج کے گرد گھومنے کی تھیوری پیش کی تھی۔ کوپرنیکس سے پہلے، حضرت مسیح کی پیدائش سے ہزار سال قبل، پیتھاگورس پہلے ہی زمین کی سورج کے گرد گردش کا نظریہ پیش کر چکا تھا۔ لیکن یہ نظریہ کوپرنیکس تک طاق نسیاں بنا رہا۔ پیتھاگورس نے زمین کے سورج کے گرد گھومنے کے کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے تھے۔ لیکن کوپرنیکس جس طرح سیاروں کے نظام کی گردش کی نقشہ کشی کی اس سے کائناتی علم میں ایک انقلاب واقع ہوا۔
کوپرنیکس کے سو سال بعد گلیلیو نے وہی باتیں اٹلی کی روزمرہ کی زبان میں تحریر کیں جن سے کائنات کے بارے میں انسان کے خیالات میں ایک انقلاب نے جنم لیا۔
اب اس انقلاب کے پانچ چھ سوسال بعد انسان نے ذہنی طور پر یہ تو قبول کر لیا ہے کہ زمین کو اور زمین کے باقی خاندان کو جس کا مرکزی انجن سورج ہے اس کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہے لیکن انسان ابھی تک یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اسے اس کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہے۔
لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ وقت کے ساتھ صنعتی انقلاب کے بعد انسان نے اپنے گرد موجود کائنات کو جاننے کے بارے میں اپنی سرگرمیوں میں خاصا اضافہ کرد یاہے۔
خاص طور پر اسپیس ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقیوں نے انسان کے لئے خلا کو دیکھنے اور سمجھنے اور اس کائنات کو جاننے کے امکانات میں لامحدود اضافہ کر دیا ہے۔
ایک وہ وقت تھا کہ قران کا ذولقرنین زمین کی حدود دریافت کرنے کے لئے نکلا تھا اور سورج کو دلدل میں اترتے دیکھ کر یہ سوچ کر واپس لوٹ آیا تھا کہ وہ زمین کی آخری حد تک پہنچ گیا ہے۔ ایک یہ وقت ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے اسپیس شپ ہمارے شمسی نظام کی حدود سے باہر نکل کر باقی ماندہ کائنات کی تصویریں زمین پر واپس بھیج رہے رہیں۔
ہماری کائنات کتنی وسعیح ہے اس کی وسعت کا ہمیں ابھی صحیح اندازہ نہیں۔ لیکن جہاں تک انسان کی بنائے آلات ہماری مدد کر سکتے ہیں ہمارے شمسی نظام سے باہر پہلا سیارہ تقریباً ہم سے چار نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ہے۔
جی ہاں۔ ہم لفظ نور اور نور کے تصور سے کئی ہزار سال سے واقف ہیں۔ لیکن نوری سال کی اصطلاح استمعال کرتے ہوئے انسان کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ نوری سال کی اصطلاع سائنسدانوں نے روشنی کی رفتار کی بنیاد پر کائناتی فاصلوں کو ماپنے کے لئے تراشی تھی۔ اگر ہم اپنے نظام شمسی سے نکل کر قریب ترین سیارے تک سفر کرنا چاہیں اور ہمیں استعاعت ہو کہ ہم روشنی کی رفتار سے سفر کر سکیں تو ہمیں اس سیارے تک پہنچتے چار سال لگیں گے۔
ہماری گیلیکسی جس کا ہمارا نظام شمسی ایک معمولی سا حصہ ہے ایک سو سے ایک سو بیس نوری سالوں کے فاصلوں پر محیط ہے۔ جس میں دو سو سے چارسو بلین ستارے موجود ہیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ ہماری کائنات صرف ہماری گیلیکسی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں ایک اندازے کے مطابق ہماری گیلیکسی جیسی 500 بلین گیلیکسیز موجود ہیں۔
ان گیلیکسیوں میں ہماری گیلیکسی کی طرح سینکڑوں ارب ستارے محو حرکت ہیں۔ جن میں اربوں کی تعداد میں ہمارے نظام شمسی جیسے نظام متحرک ہیں۔ تا حال ہم نہیں جانتے کہ ہماری اپنی گیلیکسی میں ہمارے نظام شمسی جیسے کتنے نظام شمسی موجود ہیں۔ لیکن ہم آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں چونکہ ہمارا سورج ہماری گیلیکسی میں پائے جانے والے دو سو ارب ستاروں میں سے ایک ستارہ ہے اس بات کا امکان ہے کہ ہماری اپنی گیلیکسی میں کئی بلین نظام شمسی موجود ہوں۔ جہاں ہماری زمین جیسی زمینیں بھی موجود ہوں اور ان پر زندگی بھی ایسے ہی موجود ہو جس طرح زمین پر موجود ہے۔
انسان کو خلائی دور میں داخل ہوئے ابھی صرف پچاس ساٹھ سال کے قریب عرصہ گزرا ہے اور خلائی تحقیق و تفتیش میں روز بروز تیزی آتی جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ آئیندہ چند دہائیوں میں انسان نہ صرف نظام شمسی میں واقع دوسرے سیاروں تک سفر شروع کردے گا بلکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ دوسری گیلیکسیوں تک مطالعاتی سفر کا سلسلہ شروع ہوجائے اور ہم اپنی گیلیکسی کی طرح دوسری گیلیکسیوں کے بارے میں بھی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرسکیں۔
کائنات کی وسعت اور پھیلاؤ کے بارے میں غور وفکر سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح اس سارے کائناتی نظام میں ہماری زمین ایک غیر اہم سیارہ ہے اسی طرح اس کائناتی نظام میں ہم بھی بطور انسان یقیناً اس کائناتی نظام کا مقصود نہیں ہیں۔ چنانچہ اگر کسی کائناتی حادثے کے نتیجے میں ہم اس کائناتی سین سے غایب ہو جاتے ہیں تو بھی یہ اربوں بلین گلییکسیوں اور ان گیلیکسیوں میں اربوں بلین ستاروں کا یہ سفر جاری رہے گا۔ اور اگر ہم ایسے
کسی کائناتی حادثے میں معدوم نہیں ہو جاتے تو ہمارے کھیلنے کے لئے یہ اربوں بلین گیلیکسیاں اور ان میں اربوں بلین ستارے ہمیشہ موجود رہیں گے۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے